دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقام فیض اور سوئے دار
حامدمیر
حامدمیر
کالم کا عنوان تھا ’’خان صاحب کا فیض‘‘ یہ کالم 28 نومبر 2022ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اس کالم کی اشاعت سے صرف دو دن پہلے عمران خان بڑے دھوم دھڑکے سے جنگی ترانے بجاتے ہوئے راولپنڈی آئےتھے۔ بظاہر تو وہ شہباز شریف کی حکومت گرانے آئے تھے لیکن اصل مقصد جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری رکوانا تھا۔ جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت 27 نومبر 2022ء کو ختم ہونے والی تھی اور عمران خان نے 26 نومبر کو اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دھرنے کا اعلان کردیا تھا۔ دوسری طرف جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوشش میں مصروف تھے اور نئے آرمی چیف کی تقرری کیلئے جی ایچ کیو کی طرف سے وزارت دفاع کو نام نہیں بھجوائے جارہے تھے۔ وزارت دفاع نے یہ نام وزیراعظم کو بھجوانے تھے اور وزیراعظم نے ان ناموں میں سے کسی ایک کو نیا آرمی چیف بنانا تھا۔ جنرل باجوہ اپنی توسیع کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے اور کور کمانڈر بہاولپور جنرل فیض حمید نیا آرمی چیف بننے کیلئے شہباز شریف کی باقاعدہ منت سماجت کر رہے تھے۔ ایک موقع پر تو فیض حمید نے وزیر اعظم کو پیغام بھجوایا کہ آپ عاصم منیر کوبھو ل جائیں کیونکہ وہ تو ریس میں ہی نہیں ہے اس لئے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری 29 نومبر کو ہونی ہے اور عاصم منیر نے 27 نومبر کو ریٹائر ہو جانا ہے۔ ایک کور کمانڈر کی طرف سے آرمی چیف بننے کیلئے اس لابنگ نے وزیر اعظم کو اس نتیجے پرپہنچا دیا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا غیرعلانیہ الائنس ٹوٹ چکا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی کوشش تھی کہ جی ایچ کیو سے آنے والی سمری میں جنرل عاصم منیر کا نام شامل ہو جائے۔ عاصم منیر فوج کے سینئر ترین جرنیل تھے لیکن باجوہ ان کا نام ڈراپ کرنے کی کوشش میں تھے۔ آخر کار خواجہ محمد آصف فوج کے سینئر ترین جرنیل کا نام وزیر اعظم کو بھجوائی جانے والی سمری میں شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے لیکن کورکمانڈر بہاولپور جنرل فیض حمید نے تحریک انصاف میں اپنے تعلقات کو استعمال کرکے 26 نومبر کو راولپنڈی میں دھرنے کا اعلان کرا دیا۔ عمران خان کو پیغام بھجوایا گیا کہ عاصم منیر کا نام لے کر ان کی مخالفت کرو۔ اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ماسٹر اسٹروک کھیلا۔جب انہیں مارشل لا کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے نواز شریف کے مشورے سے 26نومبر سے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان کا فیصلہ کرلیا۔
شہباز شریف نے 24 نومبر کوجنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان کیا تو فیض حمید صدمے سے اپنی کرسی پر گر گئے۔ عمران خان کو پیغام بھیجا گیا کہ صدر عارف علوی کے ذریعہ عاصم منیر کے نام کو مسترد کردیا جائے۔ عارف علوی اسلام آبادسے لاہور پہنچے۔ عمران خان کو خدشہ تھا کہ اگر تحریک انصاف نے نئے آرمی چیف کی تقرری میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو فیض حمید آرمی چیف نہیں بنے گا بلکہ جنرل باجوہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مارشل لا لگائے گا لہٰذا عمران خان نے بادل نخواستہ عاصم منیر کی تقرری پر رضا مندی کا اظہار کردیا۔ یہ رضا مندی کوئی آئینی ضرورت نہیں تھی لیکن عارف علوی نے عمران خان کو صلاح مشورے میں شامل کرکے دراصل تحریک انصاف اور فوج میں محاذ آرائی ختم کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم کے پاس جو سمری آئی تھی اس میں پہلے نمبر پر عاصم منیر تھے وہ آرمی چیف بن گئے۔ دوسرے نمبر پر ساحر شمشاد تھے وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بن گئے۔ اظہر عباس تیسرے نمبر پر تھے انہوں نے 25 نومبر کو ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ فیض حمید پانچویں نمبر پر تھے لیکن انہوں نے اظہر عباس کی طرح قبل از وقت ریٹائرمنٹ نہ لی۔فیض حمید نے 26 نومبر کے دھرنے کا انتظار کیا۔ 26 نومبر کو عمران خان راولپنڈی آئے لیکن اسٹریٹ پاور نہ دکھا سکے لہٰذا اسلام آباد کی طرف مارچ کے اعلان کی بجائے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کرنے کا اعلان کرکے واپس لاہور چلے گئے۔ خان صاحب کے اس اعلان نے جنرل فیض کی بہت حوصلہ شکنی کی لیکن انہوں نے تحریک انصاف جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما سے کہا کہ فکر نہ کرو میری بندوق میں بہت گولیاں باقی ہیں۔ جب یہ فقرہ مجھ تک پہنچا تو پھر میں نے وہ کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’خان صاحب کافیض‘‘۔
28 نومبر 2022ء کے کالم میں ایک شعر بھی لکھا تھا:
مقام ’’فیض‘‘ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ فیض صاحب دوسروں کو سوئے دار تک پہنچانے کی کوشش میں خود ہی اس مقام تک پہنچ جائیں گے۔ عمران خان کی طرف سے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کےبعد فیض حمید کئی دن تک سیاسی بحران میں مزید شدت پیدا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور شہباز شریف کے ساتھ ساتھ جنرل عاصم منیر کوبھی استعفیٰ دینا پڑےگا لیکن ہمیشہ کی طرح ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی کیونکہ ان کی اکثر خواہشات ان کے قد سے بہت بڑی ہوتی تھیں لہٰذا انہوںنے ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ 8دسمبر 2022ء کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
جنرل فیض کے ساتھ میرا کوئی ذاتی عناد نہیںتھا اور نہ کوئی جائیداد کا جھگڑا۔ 2017ء میں وہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کائونٹر انٹیلی جینس بنے تو سب سے پہلے ہمارے صحافی دوست ارشد شریف نے نام لے کر سوشل میڈیا پر ان کوچیلنج کیا تو پتہ چلا کہ موصوف نے اپنی جیب میں بہت سے سیاستدان اور صحافی ڈال رکھے ہیں۔ آج کل تو کچھ ایسے صحافی بھی ناقدینِ جنرل فیض میں شامل نظر آتے ہیں جو موصوف کی خوشنودی کیلئے انتہائی مشکل وقت میں مجھ جیسے کمزور صحافی پر بار بار حملہ آور ہوتےتھے۔ یاد رہے کہ مئی 2021ء سے مارچ 2022ء تک مجھ پر پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے دروازے بند تھے۔ پابندی کے اس دور میں جب گیارہ جنوری 2022ء کو میں نے واشنگٹن پوسٹ میںلکھا کہ 2022ء عمران خان کیلئے ڈرائونا خواب بننے والا ہے تو فیض حمید نے اس وقت کی حکومت کے مخالف کئی صحافیوں سے یہ لکھوا لیا کہ عمران خان کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ فیض صاحب کے انہی کمالات کا سراغ لگاتے لگاتے میں سیاست و صحافت کے کچھ ایسے چہروں کو پہچان گیا جو بظاہر عمران خان کےتو شدید مخالفت تھے لیکن ان کا ریموٹ کنٹرول فیض حمید کےپاس تھا۔ اگر فیض حمید کا کچا چٹھا سامنے آگیا تو بہت سے عمران خان کے مخالف نام نہاد جمہوریت پسند بھی بے نقاب ہو سکتے ہیں اسلئے ان جمہوریت پسندوں کی کوشش ہے کہ فیض حمید کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی ملازمت کے دور میں سرگرمیوں کی زیادہ چھان بین نہ ہو۔ یاد رکھئے گا احتساب تو پورے کا پورا کرنا پڑے گا وگرنہ جو فیض کو بچانے کی کوشش کرے گا وہ بھی سوئے دار تک پہنچے گا۔
واپس کریں