دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مولانا کے انگور
حامدمیر
حامدمیر
اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی زندہ مثال مولانا فضل الرحمان کی ذات ہے۔ فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے مولانا صاحب کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ انتخابات سے قبل ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ اس مرتبہ جمعیت علماء اسلام کو پاکستان کے سیاسی منظر سے غائب کر دیا جائے گا اور مولانا فضل الرحمان سیاست کے کھلاڑی سے ایک بھکاری بن جائیں گے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مسلم لیگ (ن) پر برا وقت تھا تو اس جماعت نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیکر مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ بنایا۔ جب مولانا نے پی ڈی ایم کے جلسے جلوس شروع کئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کچھ بیک ڈور چینل کھولے اور یوں عمران خان کی حکومت کو گرانے کیلئے جوڑ توڑ شروع ہوا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے انہیں جب بھی سیاسی قوت کے مظاہرے کی ضرورت پڑتی تو وہ مولانا سے مدد مانگتے تھے کیونکہ جے یو آئی انکی حکومت میں شامل تھی۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد دانستہ طور پر مولانا فضل الرحمان سے فاصلے پیدا کئے گئے تاکہ مسلم لیگ (ن) کو بنیاد پرستوں کا اتحادی نہ سمجھا جائے۔ مولانا کافی عرصہ اس غلط فہمی میں رہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) انتخابات میں ان کے ساتھ اتحاد قائم کریگی۔ انکی غلط فہمی اس وقت دور ہوئی جب مسلم لیگ (ن) نے ان سے کہا کہ آپ کے امیدوار شیر کے نشان پر انتخابات میں حصہ لیں تو ہم کچھ نشستیں آپ کو دے دیتے ہیں۔ مولانا کو یقین ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) تنہا پرواز کا فیصلہ کر چکی ہے لہٰذا انہوں نے بحث مباحثے کی بجائے معاملات اللہ پر چھوڑ دیئے۔ حفاظتی تدبیر کے طور پر انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ پشین سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے۔ ڈیرہ میں ان کا مقابلہ علی امین گنڈا پور سے تھا۔ گنڈا پور جیت گئے۔ مولانا نے پشین کی نشست سے کامیابی حاصل کی۔ جب انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے تو مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ آپ کے مقابلے پر تو تحریک انصاف والوں کو کامیابی ملی ہے آپ ان کے خلاف احتجاج کریں۔ تحریک انصاف والے مولانا کے خلاف اپنے پرانے الزامات کو بھلا کر ان کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ مولانا نے اس معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ جنرل ضیاءالحق کے دورِ آمریت میں وہ بحالی جمہوریت کی تحریک میں پیپلز پارٹی کے اتحادی بنے لیکن 1988ء میں پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کو نظر انداز کر کے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ڈیل کر کے اقتدار حاصل کیا۔ بعد ازاں 2024ء میں یہی کچھ مسلم لیگ (ن) نے مولانا کے ساتھ کیا لہٰذا تحریک انصاف والوں نے مولانا کے گھر چکر لگانے شروع کئے تو مولانا محتاط رہے۔ انہوں نے نیا اتحاد بنانے کی بجائے ایشو ٹو ایشو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی کا اعلان کیا۔
سپریم کورٹ کے فل بینچ نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا تو حکومت نے سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کی۔ اس منصوبے کے تحت آئین میں 26ویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیا ترمیم کا مقصد ایک نئی آئینی عدالت کا قیام اور اس عدالت کے ذریعہ سپریم کورٹ کو غیر موثر کرنا تھا۔ آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کے ووٹ درکار تھے ان ووٹوں کے حصول کیلئے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف خود چل کر مولانا کے پاس گئے اور ان سے ووٹ مانگے۔ مولانا نے بڑے واضح الفاظ میں وزیر اعظم کو کہا کہ آپ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں اگر آپ میری جگہ ہوں تو کیا آپ راتوں رات اتنا بڑا یوٹرن لیں گے؟ شہباز شریف خالی ہاتھ واپس لوٹے۔ اس کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی بھی مولانا کے دروازے پر ٹکریں مارتے رہے۔ مولانا نے اپنی جماعت سے مشورہ کیا تو ساتھیوں نے بھی حکومت سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اس دوران کچھ حکومتی شخصیات یہ دعوے کرتی رہیں کہ مولانا فضل الرحمان ہمارے دامِ الفت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ جب ہم نے ایک اہم حکومتی شخصیت سے ان کے دعوے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے آنکھ مار کر کہا کہ مولانا کو ایک ایسی جگہ سے حکم جاری کروایا گیا ہے، جہاں مولانا انکار نہیں کر سکتے۔ اسی غلط فہمی میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلا لیا گیا۔ جب اس آئینی ترمیم کا مسودہ مولانا کو فراہم کیا گیا تو انہوں نے سب سے زیادہ اعتراضات آئین کی دفعہ آٹھ میں کی جانے والی تبدیلیوں پر کئے۔ دفعہ آٹھ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے جب مولانا نے ایک اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے بڑی شاہانہ تمکنت سے میز پر ہاتھ مار کر کہا کہ ہم ہر قیمت پر اس ترمیم کو منظور کرانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانا کو وزیر صاحب کی شاہانہ تمکنت میں رعونت کی جھلک نظر آئی اور انہوں نے اس آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے کو مسترد کر دیا۔ مولانا کے انکار پر حکومت دنگ رہ گئی۔ نجانے وہ یہ کیوں سمجھ رہے تھے کہ مولانا اپنا ریٹ بڑھا رہے ہیں۔ مولانا کے انکار نے حکومت کو صدمے سے دوچار کر دیا لیکن مولانا کی ہر طرف سے عزت افزائی ہو رہی تھی۔
اب وہ تمام صاحبان اپنے الفاظ پر غور کریں جو بڑے دھڑلے سے میڈیا کو بتا رہے تھے کہ حکومت کی نمبرز گیم پوری ہے۔ مولانا نے ایک دفعہ نہیں بار بار وزیر اعظم اور ان کے وزراء سے کہا کہ میں کسی ایسی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنوں گا جس کا مقصد آئین کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہو۔ پھر یہ صاحبان نمبرز گیم پوری ہونے کا دعویٰ کیوں کرتے رہے؟ جی ہاں! ان کے اعتماد کی وجہ وہ جگہ تھی جہاں سے آنے والے حکم پر یہ صاحبان فوراً جھک جاتے ہیں۔ مولانا نے اس جگہ نہ انکار کیا نہ کوئی گستاخی، انہوں نے اپنا مدعا بڑے ادب سے بیان کیا کیونکہ مولانا کئی غیر ملکی زبانیں بول سکتے ہیں۔ حکومت نے اپنی ناکامی اور رسوائی کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے ایک نئی کوشش شروع کی ہے۔ مولانا کی سیاست کے باغ میں انگور کی فصل تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت ہر کوئی اس باغ کے انگور توڑنے کے چکر میں ہے۔ مولانا تحفے کے طور پر اپنے باغ کے کچھ انگور قابل اعتماد دوستوں کو خود ہی بھجوا دیں گے لیکن اگر کوئی چکر بازی یا چالاکی سے انگور چرانے کی کوشش کرے گا تو یاد رکھے کہ فی الحال یہ انگور کھٹے ہیں ابھی کچھ انتظار کریں۔ اب آپ مانگنے والے اور مولانا دینے والے ہیں، انگور ملیں گے تو مولانا کی مرضی سے ملیں گے۔
واپس کریں