شہزاد ناصر
گذشتہ چند دنوں سے حیدرآباد اور دیگرشہروں میں سندھی پشتون فسادات پھوٹ پڑے ہیں جن میں پشتونوں کی دکانوں پر حملے ہوئے، کاروبار بند کروایاگیا۔، کاروبارسے منع کیاگیا اورصاف صاف کہاگیاکہ سندھ چھوڑکراپنےملک چلے جائیں جوابی طورپر کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں سندھیوں کو بسوں سے اتارکرماراگیا۔
یہ نسلی اورلسانی فسادات ایک سندھی نوجوان کاکاکی پشتون ہوٹل والےکےہاتھوں ہلاکت کےبعد پیش آئے، کاکا کی فیس بک والی تصاویر ایک اوباش نوجوان کی ہیں جو کلاشنکوف اور پسٹل کی نمائش کررہاہےاورشراب کی بوتلیں سجارکھی ہیں، معلوم ہواہےکہ کاکادوستوں کے ساتھ پشتون ہوٹل پر مفت کھاناکھاتاتھااورجب پشتون مالک نے اس سے پیسے مانگےتواس نے شلوار آگےسے کھول کردکھادی جس پرتصادم ہوگیااورنتیجےمیں قتل۔
بظاہر تو یہ بدمعاشی کا ایک عام واقعہ لگتاہےلیکن اس کا تیزی سے نسلی فسادات کا روپ دھارلینا حیران کن ہے کیونکہ اس صوبے میں سندھی پشتون فسادات کی کوئی تاریخ موجود نہیں رہی البتہ مہاجر پشتون فسادات اور مہاجر سندھی فسادات کی ایک ہسٹری موجود ہے ، میں نے طویل عرصہ مہاجر پشتون خونی فسادات دیکھے ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حیدرآبادمیں پرانے کپڑوں کی پٹھانوں کی دکانوں کو مہاجرلڑکوں نے میری آنکھوں کےسامنے ہی آگ لگائی تھی۔
ایسے میں پشتونوں کے خلاف سندھیوں کی مہم اچانک نہیں ، اس کے پس پردہ کوئی ہاتھ ہے، سیاسی مفادات کارفرماہیں اور وہ کیاہوسکتے ہیں جلد ہی وہ معاملات کھل کرسامنے آجائیں گے لیکن پشتونوں کے خلاف مہم میں جسقم یعنی سندھی قوم پرست پیش پیش ہیں، جنرل ضیاکےدورمیں سندھی نیشنلسٹ طاقتور تھے بلکہ ان کا جنرل ضیا سے قریبی تعلق بھی تھا لیکن پی پی کے پاور میں آنے کے بعد سندھی نیشنلسٹ کمزورہوتے چکے گئے۔ طویل عرصے بعد سندھی قوم پرست پھر حرکت میں آئے ہیں جبکہ شنید ہے کہ مستقبل میں ایم کیو ایم کی بحالی اور الطاف حسین کی واپسی کاراستہ بھی ہموار کیاجارہاہے۔
سندھ میں پشتونوں کے خلاف واقعات الارمنگ ہیں کیونکہ پشتون اب وہاں سے نہیں نکلیں گے ، میں کراچی میں بہت سے ایسے پشتونوں کوبھی جانتاہوں جو تیسری نسل سے وہاں آباد ہیں اور کے پی ان کےلئے اجنبی ہوچکاہے۔ یہ 1960 بلکہ اس سے بھی پہلے سے وہاں آباد ہیں۔
واپس کریں