دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پٹرول کی قیمت اور اہل و نااہل
رعایت اللہ فاروقی
رعایت اللہ فاروقی
جب پرانی شکلوں سے بور ہونے والے پاکستان میں نئی شکل کی فیض کاری کر رہے تھے تو ہم نے بار بار لکھا تھا کہ جس شکل کو آپ لانا چاہ رہے ہیں یہ کسی جبری عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نہیں بلکہ ذاتی کمی کوتاہیوں کے نتیجے میں ہی عین فطری "نا اہل" ہے۔ لہذا یہ غلطی نہ کریں ورنہ ملک اپنی تاریخ کے سب سے سنگین مسائل سے دو چار ہو جائے گا۔ مگر ہماری نہ سنی گئی، اور ایک نا اہل کو مسلط کردیا گیا۔ مسلط کرنے والوں نے نون لیگ کے دور میں دعوی فرمایا تھا "معاشی صورتحال اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں" اس دعوے پر ملک کے غیر جانبدار ماہرین معاشیات ہی نہیں بلکہ معاشی امور کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی ادارے بھی چونکے تھے۔ ان سب کا چونکنا بجا تھا، کیونکہ وہ پاکستان کو تیزی سے ابھرتی معیشت قرار دے رہے تھے۔ اور ظاہر ہے حکومت کی معاشی پالیسی اور اور اس کے اثرات کے نتائج دیکھ کر ہی وہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے مثبت اور بہت ہی حوصلہ افزا پیشینگوئیاں کر رہے تھے۔ مگر عالمی اداروں کی اس مثبت رپورٹنگ کو نظر انداز کرکے وہ من چاہی نئی شکل مسلط کردی گئی جس کے لئے مقامی میڈیا سے اپیل کرنی پڑی کہ وہ چھ ماہ "مثبت رپورٹنگ" کرلے تو ان کا لاڈلہ کوئی کرشمہ دکھانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
ہم جانتے ہیں کہ جب کسی حکومت کی کار کردگی بری ہو تو الیکشن والے سال اس کی حالت اس خوف سے غیر ہوتی ہے کہ اسے آنے والے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن 2013ء میں برسر اقتدار آنے والی نون لیگ کی حکومت کے حوالے سے 2017ء میں یہ عام تاثر تھا کہ 2018ء میں یہی جیتے گی۔ عوامی تاثر تو کار کردگی کے نتیجے میں بعد میں بنا۔ دھرنے اور پاناما کی خندقیں کھودنے والے اس کا اندازہ 2014ء میں ہی لگا چکے تھے کہ نون لیگی حکومت کی پالیسیاں ملک کو سنگین مسائل سے نجات دلانے والی ہیں، یہ رجحان اگر قائم رہا تو اس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ ایک ہی پارٹی لگاتار دو بار منتخب ہوکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اور اس کی 2018ء کے بعد والی ٹرم رواں ٹرم سے بھی زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ اس اسٹیبلیشمنٹ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا جو طے شدہ پالیسی کے تحت ملک میں جمہوری نظام کو کمزور رکھنے کی قائل ہے۔ یہ اسی "خدشے" کا نتیجہ تھا کہ پہلے دھرنے اور پھر پاناما سکینڈل کی خندقیں کھودی گئیں۔ اگر نون لیگی حکومت کی پالسیاں غلط ہوتیں تو اسٹیبلیشمنٹ کو خندقیں کھودنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ حکومت خود ہی 2018ء کا الیکشن بالکل اسی طرح ہار جاتی جس طرح 2013ء میں پیپلز پارٹی ہاری تھی۔
پاناما سکینڈل اور پھر انتخابات سے قبل نون لیگ کو توڑنے کی کوششوں کے دوران اسٹیبلیشمنٹ جس طرح ننگا ناچ ناچی وہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو تھی ہی نہیں۔ تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلیشمنٹ سات پردے پھاڑ کر سب کچھ علانیہ کر رہی تھی۔ مگر اس کے باوجود یہ نواز شریف کو متنازع فیصلے کے ذریعے سزا تو سنا سکے مگر نون لیگ کی 2018ء کے انتخابات میں شکست یقینی نہ بنا سکے۔ الٹا یہ ہوا کہ اسے مزید عوامی ہمدردی مل گئی۔ الیکشن آیا تو نتائج اسٹیبلیشمنٹ کے لئے حوصلہ شکن تھے۔ دن بھر پولنگ سموتھ چلتی رہی۔ کہیں سے بڑے پیمانے پر کسی گڑبڑ کی خبر رپورٹ نہ ہوئی۔ گڑبڑ تب شروع ہوئی جب ووٹوں کے گننے کا مرحلہ آیا۔ پھر آرٹی ایس بھی بیٹھ گیا۔ پولنگ ایجنٹ بھی نکال کر باہر کردئے گئے۔ انتخابی نتائج والا فارم بھی جاری نہ ہوا۔ اور پسند کے نتائج جاری کر کے قوم سے کہا گیا "مبارک ہو لڑکا ہوا ہے"۔ مگر یہ جاری کردہ نتائج بھی ان کے لاڈلے کے لئے ناکافی ثابت ہوئے۔ چنانچہ حرکت میں آیا جہانگیر ترین کا جہاز اور نامعلوم فون۔ اور بن گئی اتحادی حکومت ۔
مگر ہمارے کہے کے عین مطابق وہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے ناکام حکومت ثابت ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ وہ حکومت ناکام کیوں ہوئی ؟ سبب بالکل واضح ہے، اور وہ یہ کہ خان صاحب کو بتا دیا گیا تھا کہ آپ نے ٹینشن کوئی نہیں لینی۔ 2023ء کا انتخاب زیادہ بہتر طور پر مینج کرکے آپ کا اقتدار 10 سال پر محیط رکھا جائے گا۔ جس آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ دس سال حکومت کرے گا۔ اور کرے گا بھی عوامی ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ انتخابی "مینجمنٹ" کی مدد سے تو اسے کار کردگی دکھانے کی کیا ضرورت ؟ اس نے تو پھر کبھی جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانی تھیں تو کبھی سال میں 12 موسم تخلیق کرنے تھے۔ نااہلی کا یہ عالم تھا ان کی تو پرائیویٹائزیشن پالیسی میں بھی صرف بھینسیں اور پرانی گاڑیاں نیلام ہوئیں۔ لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ خان صاحب سے کہا گیا ہے کہ آپ نے سارا فوکس ایک کام رکھنا ہے، اور اس سلسلے میں انتھک کام کرنا ہے۔ کیا کام ؟ نون لیگ کو تباہ و برباد کرنے کا کام۔ یعنی آپ نے وہ ٹارگٹ حاصل کرنا ہے جو ہم پچھلے 35 سال میں حاصل نہیں کرسکے۔ اور یوں شروع ہوگیا "نہیں چھوڑوں گا" والا کھیل۔ معیشت تو ان کی ترجیحات میں ہی شامل نہ تھی۔ کوئی ایک یکسو معاشی پالیسی چھوڑئے تو وہ تو کوئی ایک وزیر خزانہ تک نہ رکھ سکے۔ ان کا سارا فوکس نواز شریف اور ان کی فیملی رہی اور ان کی حکومت کا سب سے طاقتور آدمی کوئی وزیر نہیں بلکہ ایک مشیر رہا۔ شہزاد اکبر مشیر برائے احتساب۔ کار کردگی موصوف کی کیا رہی ؟بس یہ کہ تین سال کی سرتوڑ کوششوں کا نتیجہ بھی یہ برآمد ہوا کہ شریف فیملی کو برطانیہ سے بھی کلین چٹ مل گئی تو لات کھا کر باہر ہوگئے۔ گویا خان صاحب کی حکومت کا سب سے اہم رکن خان صاحب سے بھی قبل راندہ درگاہ ہوا۔
یہ نااہل ترین لوگ حکومت سے نکلے ہیں تو پیچھے یہ ابتری چھوڑی ہے کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کرکے نکلے ہیں اس کے مطابق اس وقت ملک میں پٹرول کی قیمت 240 روپے فی لیٹر ہونی تھی۔ اِن ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی جو حکومت آئی ہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے پر نظر ثانی کی کوششیں کر رہی ہے مگر تباہی اتنی بڑے پیمانے کی ہے کہ اگر یہ پٹرول کی قیمت میں بڑے اضافہ نہ کریں تو ملک کا دیوالیہ ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کی خوش فہمی تو یہ تھی کہ عمران خان چونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں لھذا ان کے برسر اقتدار آتے ہیں ان پاکستانیوں کی جانب سے ڈالرز، یوروز اور درہم و ریال کا سیلاب چلا آئے گا۔ برساتی مینڈک سی خصلت رکھنے والے ایک کالم نگار تو پیشنگوئی کرچکے تھے کہ پہلے ڈالروں کی بونداباندی ہوگی پھر گھٹائیں چھا جائیں گی اور ڈالروں کی ایسی بارش ہوگی کہ سبحان اللہ۔ مگر وہ موصوف بھی آج کل اس صف میں کھڑے ہیں جہاں کھڑا ہر شخص اب عمران خان کی حمایت ترک کرنے پر داد کا طالب ہے۔ ایسے لوگ داد نہیں ایک اور چیز کے مستحق ہیں جس کا ذکر کالم میں ممکن نہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے معمول سے ہٹ کر ڈالر بھیجنے تھے اور نہ ہی بھیجے۔ ڈالروں کا یہ خواب اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے لاڈلے کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی گلے پڑ چکا ہے۔ اب اسٹیبلیشمنٹ ہی نہیں بلکہ ملک کا ہر شہری ان ڈالروں کی آس سے جڑا بیٹھا ہے جو آئی ایم ایف سے ملنے ہیں۔ اور جو پٹرول کی قیمت سے مشروط ہیں۔ ہنگامی صورتحال سے نکلنے کے لئے موجودہ حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی پٹرول کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ کردیا ہے جبکہ مزید اضافہ بھی یقینی ہے کیونکہ خان صاحب آئی ایم ایف سے معاہدہ کرچکے ہیں۔ اس سے مہنگائی آسمان پر پہنچے گی، جس سے غریب طبقے کو بچانے کے لئے ریلیف پیج کا بھی اعلان ہوا ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جس تک اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے لاڈلے نے ملک کو پہنچایا ہے۔ مگر ایک بات کا جزوی سا اطمینان بھی ہے۔ خوفناک صورتحال میں نظریں کسی ایسے کو تلاش کرتی ہیں جو ریسکیو کر سکے۔ جو کسی نام نہاد عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بیشک نا اہل ہو مگر کار کردگی کے لحاظ سے اہل ہو۔ آپ صرف ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں کے تقابل سے اندازہ لگا لیجئے کہ کون اہل ہے اور کون نااہل۔
2008ء میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو ڈالر کی قیمت 70 روپے تھی اور پیٹرول کی قیمت 62 روپے فی لیٹر۔ جب 2013ء میں پیپلز پارٹی کی وہ حکومت اقتدرا سے رخصت ہوئی تو ڈالر کی قیمت 99 روپے جبکہ پٹرول کی قیمت 103 روپے تھی۔ گویا مکمل نااہلی۔ اسی ریٹ کے ساتھ نون لیگ برسر اقتدار آئی اور پانچ سال حکومت میں رہی۔ جب وہ حکومت رخصت ہوئی تو ڈالر 115 روپے کا تھا اور پٹرول 86 روپے فی لیٹر۔ گویا نون لیگ کی حکومت 2018 میں پیٹرول کی قیمت پیپلزپارٹی والے 2013ء کے ریٹ سے 17 روپے کم پر چھوڑ کر گئی جبکہ ڈالر کی قیمت میں 16 روپے اضافہ ہوا۔ ڈالر کی قیمت کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ 10 دسمبر 2017 تک کے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اس کی قیمت میں صرف چھ روپے اضافہ ہوا تھا اور یہ 105 روپے کا تھا۔ اسی دن یہ پہلا بڑا جمپ لگا کر 110 پر پہنچا اور پھر نون لیگ کا دو رحکومت پورا ہونے سے دو ماہ 10 دن قبل 21 مارچ 2018 کو یہ دوسرا بڑا جمپ مار کر 115 روپے پر پہنچا۔ اگر ہم غور کریں تو یہی وہ دورانیہ ہے جب بلندی کے ریکارڈز پر ریکارڈ قائم کرتی سٹاک مارکیٹ اسٹیبلیشمنٹ اور بابا رحمتے کے بندر تماشے کے نتیجے میں تیزی سے نیچے آنی شروع ہوگئی تھی سو اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ڈالر نے یہ دو بڑے جمپ کیوں لئے ؟اسی اسٹیبلیشمنٹ اور اس کے لاڈلے کی پالیسیوں کے نتیجے میں ڈالر اور پیٹرول کی قیمتیں آج کہاں کھڑی ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ نون لیگ کے دور میں "معاشی صورتحال اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں" کا دعوی کرنے والے جنرل باجوہ سے اگر پوچھا جائے کہ "ہن آرام ای ؟" تو اس سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے سو ہم یہ غلطی نہیں کریں گے۔
ایسے میں اس لمحہ موجود میں عمران خان کا حکومت میں نہ ہونا اس لحاظ سے بڑا سکھ ہے کہ اگر وہ 2023 کے آخر تک موجود ہوتے تو تباہی کے مزید مراحل بھی ساتھ لاتے۔ شہباز شریف کی حکومت کا ہونا اس لحاظ سے جزوی طور پر باعث اطمینان ہے کہ یہ ریسکیو کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ اگلا الیکشن سر پر کھڑا ہے۔ اور شنید ہے کہ تباہی کے ذمہ دار آج بھی یہ طے کرکے بیٹھے ہیں کہ اگر اگلے الیکشن میں نون لیگ کی واضح اکثریت کا امکان نہ ہوا تو تب ہی وہ فری اینڈ فیئر اور وقت پر ہوں گے۔ اگر نون لیگ کی واضح فتح کا امکان نظر آیاتو پھر عبوری حکومت کو طول دیدیا جائے گا۔ تاکہ ریٹائرڈ ہونے والے اطمیان سے آسٹریلیا پہنچ کر بس سکیں۔ گویا اب بھی انہیں ملک کی نہیں اپنی پڑی ہوئی ہے۔
واپس کریں