رعایت اللہ فاروقی
کل سے ہر دوسرا شخص ہماری پوسٹوں پر کمنٹس میں کہہ رہا تھا کہ گولی ٹانگ میں اس لئے لگی کہ شوٹر دماغ کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ ہم حیران تھے کہ اگر دماغ کو نشانہ بنانا مقصود تھا تو ٹانگ میں گولی مارنے کی کیا تک تھی ؟ الحمدللہ یہ پریشانی پی ٹی آئی رہنماء حماد اظہر نے دور کردی۔ انہوں نے دنیا ٹی وی کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ گولی خان صاحب کی ٹانگ میں شہ رگ سے صرف دو تین سینٹی میٹر کے فاصلے پر لگی ہے۔ اب اتنا تو ہم جانتے ہی ہیں کہ شہ رگ دماغ کے قریب واقع ہوتی ہے۔ سو اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ ان کا دماغ ٹخنوں میں ہے۔ حماد اظہر کے اس بیان سے ہمیں یہ اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ ہر زمانےکے "اخیر المؤمنین" کی عقل ارتقائی سفر میں رہی ہے۔ مثلا دسویں صدی کا عظیم عربی شاعر ابوالطیب متنبی اپنے عہد کے اخیر المؤمنین کی عقل کے بارے میں یہ انکشاف کرتا ہے
لقد کنت احسب قبل الخصی
أن الروس مقر النہی
فلما ا نتھینا الی عقلہ
رایت النہی کلھا فی الخصی
ترجمہ: اس خصی سے قبل ہمارا تصور یہ تھا کہ عقل سر میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ہم اپنے اخیر المؤمنین کی عقل کی تلاش میں نکلے تو وہ ہمیں اس کے یاقوت و مرجان (خصیتین) میں ملی۔
ان دو اشعار میں متنبی نے کمال فقط یہ نہیں کیا کہ اپنے اخیر المؤمنین کی عقل یاقوت و مرجان میں بتا کر اس کا مذاق اڑایا ہے۔ بلکہ اصل چوٹ یہ ہے کہ وہ اخیر المؤمنین (کافور بادشا) یاقوت و مرجان سے ہی محروم تھا۔ سو متنبی ان اشعار میں یہ کہہ رہا ہے کہ اس بیچارے کی تو عقل ہی یاقوت و مرجان میں تھی جب وہ حادثے کی نذر ہوگئے تو یہ عقل سے ہی محروم ہوگیا ۔
آج ہم متنبی کے دور سے گیارہ سو سال آگے آچکے ہیں۔ سو ہمارے عہد کے اخیر المؤمنین کی عقل ارتقائی سفر میں ٹخنوں کے مقام پر پڑاؤ رکھتی ہے۔ اگر گولی وہاں لگ جاتی تو صورتحال کافور بادشاہ والی ہی ہوجاتی
واپس کریں