دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاست کے رمز۔رعایت اللہ فاروقی
رعایت اللہ فاروقی
رعایت اللہ فاروقی
دو چار موٹی موٹی باتیں جان لیجئے، سیاست سمجھ آئے نہ آئے اتنا ضرور سمجھ آجائے گا کہ سیاست کے "حالات حاضرہ" سمجھنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ یہ جو آپ اخبارات اور ٹی وی پر سیاسی خبریں اور بیانات دیکھتے ہیں یہ حالات حاضرہ کا صرف گرد و غبار ہوتا ہے۔ اس گرد و غبار کے اندر ہی وہ اصل صورتحال چھپی ہوتی ہےجس تک رسائی کے بغیر اسے سمجھا نہیں جاسکتا۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ سیاست کے تین بڑے پلیئرز ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں انہی تینوں کھلاڑیوں کی حرکات و سکنات سے جنم لیتی ہیں۔ یہ تین کھلاڑی سیاستدان، اسٹیبلیشمنٹ اور میڈیا ہیں۔ سو سیاسی کھیل کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ یا تو ان تینوں میں سے کسی ایک ٹیم کا حصہ ہوں۔ یا پھر آپ کی رسائی ان تینوں ٹیموں کے اندر تک ہو۔ اگر آپ ان تینوں میں سے کسی ایک کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ اور ان تینوں تک رسائی بھی نہیں رکھتے تو پھر آپ کے تبصرے ٹامک ٹوئیوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
اگر آپ ان تینوں میں سے کسی ایک تک رسائی رکھتے ہیں تو آپ کے گمراہ ہونے کا امکان 70 فیصد ہے۔ دو تک رسائی رکھتے ہیں تو گمراہی کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔ لیکن اگر آپ تینوں تک رسائی رکھتے ہیں مگر تجربہ نہیں رکھتے تو 30 فیصد امکان اب بھی یہ ہے کہ آپ تجزئے میں ٹھوکر کھائیں گے۔ تجربہ وہ چیز ہے جو بسا اوقات آپ کو خبر سنے بغیر بھی خبر تک پہنچا دیتا ہے۔ مثلا چند ماہ قبل مریم نواز کا خاکی لباس دیکھتے ہی میں چونک گیا تھا۔ اور حیرت ہوئی تھی کہ اس روز صرف میں ہی چونکا تھا۔ فورا دو چار فون ملائے تو میرے اندازے کی تصدیق ہوگئی کہ نون لیگ اور اسٹیبلیشمنٹ کے مابین صلح ہوگئی ہے۔ لیکن بہت زیادہ تجربہ ہونے کے باوجود بھی آپ کبھی کبھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ مثلا پچھلے ایک ہفتے سے یہ افواہیں زوروں پر ہیں کہ حکومت جا رہی ہے۔ کسی نے کہا 48 گھنٹے میں جا رہی ہے، تو کوئی کہہ رہا تھا اگلے 72 گھنٹے اہم ہیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ ملک کے تقریبا تمام جید اینکرز نے تین روز قبل اچانک نیوز چینلز پر خصوصی نشریات شروع کرکے ہیجان پیدا کیا۔ یہ سب میں بھی دیکھتا رہا مگر کیا آپ نے میری وال پر اس طرح کی کوئی چیز دیکھی ؟ نہیں، میں اپنے پوتوں اور بلے کے ساتھ سکون سے کھیلتا رہا۔ اور ان سب پر ہنستا رہا۔
حکومت رہے گی یا جائے گی، اس کا دارو مدار دو چیزوں پر ہے۔ پہلی چیز بلاول کے دورے ہیں۔ دوسری چیز آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات ہیں۔ ہمارے سٹریٹیجک تعلقات میں امریکہ، چین، اور سعودی عرب سب سے اہم ہیں۔ امریکہ ساتھ ہے تو یورپ اور عالمی مالیاتی ادارے بھی ساتھ ہیں۔ سعودی عرب ساتھ ہے تو یو اے ای بھی ساتھ ہے۔ چین تو ہر حال میں ساتھ ہوتا ہے لہذا اس کی تو کوئی ٹینشن ہی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب کا دورہ شہباز شریف کرچکے۔ یو اے ای میں بڑی موت کےنتیجے میں وہاں کا بھی دورہ ہوگیا ورنہ اس کی ضرورت نہ تھی۔ امریکہ اور چین کا دورہ بلاول کے ذمہ لگا۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ دورے کامیاب رہے ہیں۔ لیکن حتمی پتہ آئی ایم ایف کے اعلان سے چلے گا۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پاگئے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے پانچ سے سات ارب ڈالرز آسکتے ہیں۔ جبکہ امپوٹ پر پابندی کے نتیجےمیں سالانہ دس ارب ڈالرز کی بچت کا امکان بھی ہے۔ اور یہی اس وقت حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کی اولین ترجیح ہے۔
اگر پیسہ آگیا تو حکومت رہے گی اور اس کے بعد ایجنڈا آئٹم نمبر 2 یعنی عمران خان کی جانب ساری توجہ چلی جائے گی اور ظاہر ہے آہنی ہاتھ حرکت میں آئے گا۔ پیسہ نہ آیا تو خود پی ڈی ایم ہی یہ چاہے گی کہ حکومت سے نکل کر انتخابات کا رخ کرے۔ کیونکہ جتنا رکے گی اتنا پھنسے گی۔ اب یہ جو بیچ کا عرصہ ہے جو پچھلے دو ہفتوں سے جاری ہے یہ بے یقینی کا عرصہ ہے۔ بے یقینی کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افواہیں جنم لیتی ہیں۔ جب تک آئی ایم ایف ہاں یا ناں نہ کردے تب تک کسی افواہ پر کان نہ دھریئے۔ وہاں سے ناں ہوگئی تو سمجھ لیجئے کہ حکومت جا رہی ہے۔ کوئی اسے نکال نہیں رہا، خود جا رہی ہے۔ وہاں سے ہاں ہوگئی تو حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ لیکن یہ جو پی ڈی ایم کہتی ہے کہ ہم ڈیڑھ سال پورا کریں گے مجھے اس پر شک ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا اصل پروگرام نومبر کے کے بعد کسی بھی وقت انتخابات کے اعلان کا ہے۔

واپس کریں