دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک موقع تھا جو ضائع کردیا۔
رعایت اللہ فاروقی
رعایت اللہ فاروقی
تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے والے وزیر اعظم عمران خان کے کئی ایسے مسائل ہیں جو انہیں ناکام سیاستدان تو 25 سال سے ثابت کر رہے ہیں مگر اب یہ انہیں ناکام وزیر اعظم بھی ثابت کرچکے ہیں۔
ان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا یہ وہم ہے کہ وہ سیاسی طور پر کوئی بہت بڑی کرشماتی شخصیت ہیں۔ اس بات سے تو ایک لمحے کے لئے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سیاسی طور پر کوئی کرشماتی شخصیت ہیں اور ان میں عوام کو اکٹھا کرنے کی طاقت ہے۔
ایسا ہوتا تو انہیں اقتدار تک پہنچنے میں 25 سال نہ لگتے۔ یہ تو اس نسل کو بھی سیاسی طور پر متاثر نہ کرپائے تھے جو ان کے ورلڈ کپ جیتنے کی گواہ تھی۔ ان کے ارد گرد عوام کا ہجوم تب نظر آنا شروع ہوا جب جنرل پاشا کا “کرشماتی ہاتھ” حرکت میں آیا۔
سو ہم ان کے جلسوں کی صورت جو بھی کرشمہ دیکھتے ہیں یہ ان کے محبوب امپائروں کا کرشمہ ہوتا ہے نہ کہ عمران خان کی پرکشش شخصیت یا تقریر کا۔ ان کے 27 مارچ کے جلسے میں بھی اس بات کا اہم کردار ہے کہ ان کی پارٹی قیادت بار بار یہ تاثر دیتی آئی تھی کہ آخری لمحوں میں امپائر اپنا نیوٹرل پن ختم کردے گا۔
حتیٰ کہ خود خان صاحب پچھلے کئی روز سے اپنے ہر جلسے میں “جانبدار امپائرنگ” کے فضائل بھی سناتے آرہے تھے مگر کسی پر کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ شاید اس لئے بھی کہ امپائر اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ وہی عمران خان ہیں جو کرکٹ میں غیر جانبدار امپائرنگ لانا اپنا کارنامہ بتاتے آئے ہیں۔ لہٰذا ان کے قدیمی فلسفے کو مزید داغدار کرنا ٹھیک نہ ہوگا۔
عمران خان کا دوسرا مسئلہ ان کی انا اور اس کے زیر اثرمخالفین کے لئے نامناسب لب و لہجہ ہے۔ یہ اسی انا کا شاخسانہ ہے کہ آپ گاجر مولی کا ذکر بھی چھیڑ دیں تو وہ کہیں گے “گاجر مولی کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا” جبکہ حالت یہ ہے کہ سیاست تک نہیں جانتے۔
الزامات سیاستدان ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔ یہ دنیا بھر کی سیاست میں ہوتا ہے۔ کیا امریکی ڈیموکریٹس نے مخالف پارٹی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر روسی ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگایا ؟ اور کیا موجودہ صدر جوبائیڈن پر ریپبلکن پارٹی یہ الزام نہیں لگا رہی کہ ان کی چائنیز سے ساز باز ہے ؟ اور یہ کہ ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن نے چائنیز سے پیسے پکڑے تھے؟۔
سیاست میں یہ سب چلتا ہے مگر سیاسی جماعتیں سیاست مل کر کرتی ہیں۔ ان کی باہمی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں اور باہمی معاملات بھی۔ ابھی پچھلے سال ہی نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے مگر آج پھر متحد ہیں۔
عمران خان کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے جتنے بھی اتحادی ہیں ان سب کا تعارف ہی یہ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ لوگ ہیں۔ ہمیشہ ان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کے مطابق چلتی ہے۔ ان جماعتوں کے علاوہ ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس سے ان کے ادنیٰ درجے کے مناسب روابط تک ہوں۔
وہ 2018ء سے قبل کا دور تھا جب یہ الزامات لگاتے تھے تو کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھتے تھے کہ سچ ہی کہہ رہے ہوں گے۔ اب تو یہ اس دور میں داخل ہوچکے جب ان کی جاتی حکومت کو ساڑھے تین سال پورے ہوچکے۔
شریف برادران تو چھوڑیئے یہ جس مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتے آئے ہیں ان پر مقدمہ تک قائم کرواسکے ؟ انہیں گرفتار کرنے کی چھوٹی سی کوشش بھی کرسکے؟ نہیں، یہ ایسا کچھ نہیں کرسکے۔
کیونکہ ڈیزل فقط اپنے کارکنوں کو دیا گیا ایک فریب ہے۔ حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ جن شریف برادران پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر یہ برطانیہ میں مینڈک تولنے کی کوشش کرتے رہے ان شریف برادران کو برطانیہ سے ہی کلیئرنس مل چکی اور یہ کوئی معمولی کلیئرنس نہیں، بڑی چیز ہے۔ کیونکہ یہ کلیئرنس انہیں کسی ڈیم فنڈ والے فراڈیئے نے نہیں دی۔ اب تو اپوزیشن یہ کہنے کی پوزیشن میں آگئی ہے کہ ہم کرپٹ ہوتے تو عمران خان جیسا بدترین مخالف ہمیں ہمیشہ کے لئے جیلوں میں نہ بھجوا چکا ہوتا ؟
عمران خان کا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ 25 سال لگا کر بھی یہ سیاست نہیں سیکھ سکے۔ ان کی کل سیاست یہ ہوتی ہے کہ فلاں تاریخ کو سرپرائز دوں گا۔ اور یہ سیاست وہ کھیلتے بھی مخالفین کے خلاف نہیں، بلکہ اپنے کارکنوں کے خلاف ہیں۔
انہیں اس جھوٹے آسرے پر رکھتے ہیں کہ وہ سر پر دھرے ہیٹ میں سے کبوتر نکال دکھا کر سب کو حیران کر دیں گے مگر کارکن بیچارے کے ساتھ ہر بار معاملہ غالب والا ہی ہوجاتا ہے کہ تماشا دیکھنے گئے پر تماشا نہ ہوا۔
ایک مخالف سیاسی تجزیہ کار کے طور پر مجھے دھڑکا یہ تھا کہ وہ 27 تاریخ کو ایک مستعفی وزیر اعظم کے طور پر جلسے میں جائیں گے۔ میں اسے دھڑکا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان حالات میں یہی ایک زبردست سیاسی موو ہوتی۔
وہ 27 کی سہ پہر استعفیٰ دے کر مستعفی وزیر اعظم کے طور پر جلسے میں جاکر صرف اتنا کہدیتے “لوگ کہتے ہیں میں اقتدار کا بھوکا ہوں، میں لات مار کر آگیا اقتدار کو” یقین جانئے تحریک عدم اعتماد کے سبب ان کے جن کارکنوں کے چہرے تک اترے ہوئے ہیں وہ بھی جوش و خروش سے بھر جاتے۔
ان کی اس موو کے بعد اپوزیشن کے پاس کوئی موو ہی نہ بچتی اور ہرطرف ان کا کارکن یہ شور ڈال دیتا کہ خان نے اقتدار کو لات مار دی۔ میڈیا کا بھی سارا جھکاؤ ان کی جانب آجاتا کیونکہ موجودہ اپوزیشن وزارتوں کی بندر بانٹ میں الجھ جاتی۔ وہ ان سے لڑنے کے بجائے وزارتوں کے لئے آپس میں ہی الجھی ہوتی۔ مگر وہ تو وزیر اعظم کے طور پر جلسے میں آئے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لئے بطور وزیر اعظم ہی لوٹ گئے۔
انہیں اندازہ ہی نہیں کہ “سابق وزیر اعظم” میڈیا کو کتنا عزیز ہوتا ہے۔ یاد نہیں کہ یہی میڈیا تھا جو پاناما اسکینڈل اچھال اچھال کر نواز شریف کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ پاناما اسکینڈل کو اے آر وائی نہیں جیو نیوز اپنا کارنامہ مانتا ہے۔
ذرا پرانے کلپس نکال کر صرف اتنا دیکھ لیجئے کہ ان دنوں حامد میر نواز شریف کے خلاف مہم میں کتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے مگر جوں ہی نواز شریف سابق وزیر اعظم ہوئے۔ اسی میڈیا کو ان سے ہمدردی ہوگئی۔
میڈیا کا سودہ بکتا ہی تب ہے جب وہ برسر اقتدار وزیر اعظم پر کیچڑ اچھالے اور اس کیچڑ کی شدت بڑھانے کے لئے سابق وزیر اعظم سے ہمدردی جتانا شروع کردے۔ عمران خان نے یہ موقع ضائع کردیا۔ اور اس کے نتیجے میں اس بیانیے کو تقویت دے ڈالی کہ انہیں اقتدار بہت عزیز ہے۔ وہ اس کے بغیر جینے کا اب تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس سے تو انہیں دھکے دے کر ہی جدا کیا جاسکتا ہے۔
یہ موقع ضائع کرنے کا نتیجہ یہ بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے ہی وہ فصلی بٹیرے چلتے بنیں گے جو کرشماتی ہاتھ کے اشارے پر آئے تھے۔ تب ان کے لئے نہ تو ڈی سی جلسوں کا انتظام کرنے کو ہوگا اور نہ ہی کوئی مقامی پی ٹی آئی رہنماء۔
رہی سہی کسر فارن فنڈنگ کیس پورا کردے گا۔ یہ 27 تاریخ والا جلسہ صرف یوٹیوب پر ہی پڑا رہ جائے گا۔ اس کے ثمرات اقتدار کو لات مار کر ہی سمیٹے جاسکتے تھے۔ ان کا استعفیٰ اس جلسے کی حرارت زندہ رکھتا۔
صرف یہی نہیں کہ موقع ضائع کردیا گیا بلکہ پورے ملک سے اپنے کارکن بلا کر انہیں پونے دو گھنٹے تک یقین یہ دلایا گیا کہ ان کا کپتان بلیک میل نہیں ہوگا۔ وہ ڈٹ کر عالمی سازش کے خلاف کھڑا ہے۔ لیکن ان کے جلسے سے لوٹنے والے کارکن ابھی اپنے گھروں کو بھی نہ پہنچے تھے کہ وسیم اکرم پلس کی قربانی دے کر وزارت اعلی کےلئے اس پرویز الہی کو نامزد فرما لیا جسے وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے رہے ہیں۔ اور ابھی کل ہی کی بات ہے کہ یہ پرویز الہی خان صاحب کی نیپیز کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ امر بالمعروف کا ایسا مضحکہ خیز تصور خان صاحب کے ہاں ہی پایا جاسکتا ہے۔ اگر بلیک میل ہی ہونا تھا تو کم از کم وقت پر تو ہولیتے۔ اب تو پرویز الہی کا وزیر اعلی بن پانا ہی کوئی یقینی بات نہیں۔ مرکز میں خان کی حکومت ہی نہ رہی تو پنجاب میں پرویز الہی کیسے وزیر اعلی بن پائیں گے ؟ اور فرض کیجئے کہ اپوزیشن سے باقاعدہ وعدہ خلافی کرنے والے پرویز الہی نے اپنی ہی پارٹی کے دباؤ کے تحت قدم پیچھے کھینچ لئے تو پنجاب سے تو آپ کھڑے کھڑے محروم ہوگئے۔ کیونکہ وہاں اب آپ کی حکومت ہی نہیں ہے۔ اب تو نئے وزیر اعلی کا انتخاب ہونا ہے اور کون جانے کہ کون جیتتا ہے !
واپس کریں