دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انٹیلی جنس ایجنسیاں اور غیر معمولی پریس کانفرنس
رعایت اللہ فاروقی
رعایت اللہ فاروقی
گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی ایس آئی نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی اور ایک گھنٹے سے زائد وقت تک سوالات کا سامنا کیا۔ سب سے پہلے ہم ان دونوں مناصب اور ان کے تقاضوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر پاکستان کی مسلح افواج کا ترجمان ہوتا ہے۔ اور اس منصب پر بیٹھا میجر جنرل رینک کا افسر صرف عسکری و سٹریٹیجک امور سے متعلقہ معاملات پر فوج اور پاکستان کا موقف پیش کرتا ہے۔ اس منصب کا نواز شریف کے تیسرے دور تک کبھی سیاسی استعمال نہیں ہوا تھا۔ مگر ہائبرڈ نظام کے خالق اس درجہ دیدہ دلیری رکھتے تھے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس منصب نے "ریجیکٹڈ" والی بڑھک ماری۔ جس کی وجہ شاید یہ رہی کہ ان کے ادارے میں یہ بات حق الیقین کو پہنچ چکی تھی کہ بہت جلد عمران خان کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا لی جائے گی۔ عمران خان کا اقتدار شروع ہوا تو وہی ڈی جی آئی ایس پی آر یعنی میجر جنرل آصف غفور عمران خان کی بھی ترجمانی کا فریضہ یوں انجام دینے لگے کہ "مثبت رپورٹنگ" کی فرمائش تک چلے گئے۔ مگر ہم جیسوں کے متواتر لکھنے کے باوجود یہ بات ان کو سمجھ نہ آسکی کہ گھوڑوں کی ریس میں خچر دوڑا کر فتح کا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے مگر اس خواب کو من چاہی تعبیر نہیں دی جاسکتی۔ سو آج ہم اس لمحے میں کھڑے ہیں جب خچر اپنا اصل رنگ دکھا رہا ہے اور سب سے زیادہ وہی پریشان ہیں جنہوں نے اس خچر کو ریس کورس میں اتارا تھا۔یہ ہماری قومی تاریخ میں سیاسی تجربات کا ذوق رکھنے والے جرنیلوں کی سب سے بدترین ناکامی ہے۔ جتنا جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور نے تکبر کیا تھا اتنی ہی قدرت نے ان کی ناک رگڑوا رکھی ہے۔
آئی ایس پی آر کے برخلاف آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جس کا نام انٹرسروسز انٹیلی جنس یہ تاثر قائم کرتا ہے کہ یہ مسلح افواج کی ہی ایجنسی ہے۔ مگر اس کی ستر فیصد افرادی قوت بھی سویلین ہے۔ اور اس ادارے میں ایک پولیٹکل سیل بھی قائم ہے جس کا کام ہی سیاسی مداخلت ہے۔ یہ سیل چونکہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تحفہ ہے اور تحفہ بھی ایسا جو ان سے فوج نے نہ مانگا تھا بلکہ بھٹو صاحب نے اپنی سوچ کے تحت اپنے ذاتی مقاصد کے لئے قائم کیا تھا۔ سو آئی ایس آئی کی سیاسی مداخلت کا سارا کریڈٹ ہمارے پولیٹکل ارسطو ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ بھٹو صاحب کو پھانسی نے مظلوم بنایا ورنہ ان سے بڑا سفاک اور بے رحم سویلین حکمران ہماری تاریخ میں کوئی نہیں گزرا۔ یہ جو ہم سول ملٹری کشمکش میں فوج کی جانب سے ایک بے رحمی دیکھتے ہیں اس کا سارا کریڈٹ بھی ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جس نے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل گل حسن اور اس وقت کے ایئر چیف ایئرمارشل رحیم خان کو گن پوائنٹ پر اغوا کرکے استعفے لیا۔ اغوا کی یہ واردات بھٹو کے حکم پر غلام مصطفے کھر اور غلام مصطفے جتوئی نے انجام دی تھی۔ یوں فوج اب سیاستدانوں پر اعتماد ہی نہیں کرتی۔ یہ درست ہے کہ بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر امریکی خواہش کے تحت پھانسی دی گئی مگر یہ کام جنرل ضیاء کے لئے یوں بھی بہت آسان ہوگیا تھا کہ فوج میں جنرل گل حسن کی توہین والا غصہ پہلے ہی موجود تھا۔
آئی ایس آئی چونکہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی ہے سو قاعدے کے مطابق اس کے سربراہ کی آمد و رفت یا سرگرمیوں کی میڈیا کوریج نہیں ہوسکتی۔ مگر اس ادارے میں چند ایسے ڈی جیز بھی آئے ہیں جو ذاتی نمائش کے بے حد شوقین تھے۔ ایسے افراد جب جونیئر لیول پر ہوتے ہیں تو میجر عامر جیسے مسخرے ہوتے ہیں۔ ٹاپ اور جونیئرز کی بیچ والی سٹیج پر ہوں تو بریگیڈیئر امتیاز جیسے نمونے ہوتے ہیں۔ذاتی تشہیر کے خواہشمند ڈی جیز میں سب سے قابل ذکر جنرل حمید گل، جنرل شجاع پاشا اور جنرل فیض حمید ہیں۔ جبکہ وہ ڈی جیز جو مکمل طور پر پس پردہ رہے ان میں سب سے قابل ذکر جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل نسیم رانا ہیں۔
بے جا نہ ہوگا کہ لگے ہاتھوں یہ ذکر بھی کردیا جائے کہ آئی ایس آئی کے بعد اس ملک کی جو انٹیلی جنس ایجنسی سب سے اہم ہے وہ آئی بی ہے۔ جی ہاں ! یہ ایم آئی سے بڑی ایجنسی ہے۔ ایم آئی کے ایک بے حد اہم ایجنسی ہونے سے انکار نہیں۔ لیکن ہماری اکثریت تو اس کے رول سے ہی واقف نہیں سو اسے عسکری ایجنسی ہونے کے سبب آئی ایس آئی کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ ایم آئی خالص عسکری امور سے متعلق ایجنسی ہے۔ یہ دشمن ممالک کی افواج، اور ان کے سٹریٹیجک امور کی جاسوسی کرتی ہے۔ صرف جاسوسی، کوئی آپریشن انجام دینے کا اسے نہ اختیار ہے اور نہ ہی یہ کرتی ہے۔ اس کا دوسرا اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ یہ افواج پاکستان پر گہری نگاہ رکھتی ہے کہ اپنی ہی صفوں میں کوئی گندی مچھلی نہ نکل آئے۔ حتی کہ کوئی کور کمانڈر بھی اگر نظر بچا کر فوجی ڈسپلن توڑے تو آرمی چیف کو اس کی اطلاع ثبوتوں سمیت پہنچ جاتی ہے۔
سو آئی ایس آئی کے بعد سب سے اہم ایجنسی ایم آئی نہیں بلکہ آئی بی ہے اور وہ اس لئے کہ یہ ملک اور حکومت وقت دونوں کے خلاف سازشوں سے نمٹتی ہے مگر پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر۔ یہ مکمل طور پر سویلین ایجنسی ہے۔ اور انٹیلی جنس گیدرنگ میں تو یہ کئی بار آئی ایس آئی کے بھی ہوش اڑا چکی ہے۔ پلاسٹکی سپر ہیرو میجر عامر کی سازش کو جنرل بیگ کے دور میں آئی بی نے ہی پکڑا تھا۔ اسی طرح 2014ء والے دھرنے کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کی کال بھی آئی بی نے پکڑی تھی جس کے نتیجے جنرل ظہیر کو ڈی جی کے عہدے سے فارغ ہونا پڑا تھا۔ نمود و نمائش کے باب میں آئی ایس آئی کے برخلاف آئی بی انتہائی پروفیشنل اپروچ رکھتی ہے۔ اس کے کسی بھی ڈی جی نے کبھی "ماڈلنگ" نہیں کی۔ یوٹیوب یا کسی بھی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس کے کارنامے آپ کو نہیں ملیں گے۔ اس کا کوئی بھی "سوشل میڈیا بریگیڈ" وجود نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ ادارہ حقیقی معنی میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی طرح ہی کام کرتا ہے۔ اس میں اور آئی ایس آئی میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی کے اصل مشنز بیرون ملک ہوتے ہیں۔ جبکہ آئی بی صرف اور صرف اندرون ملک تک محدود ہے۔ یوں آئی ایس آئی کے ایجنٹس کو گویا جان ہمہ وقت ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے کیونکہ بیرون ملک ہی آپ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ جان کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور گرفتاری کا بھی۔ جبکہ ان ایجنٹس کو بتا دیا گیا ہوتا ہے کہ گرفتاری کی صورت میں ریاست پاکستان کا پہلا موقف ہی یہ ہوگا کہ آپ کو اپنا ایجنٹ تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے گا۔ اس کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر بیرون ملک خدمات انجام دینے والے یہ ایجنٹس حقیقی معنی میں ہیرو ہی ہیں۔
موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اس ادارے کے ان ڈی جیز میں سے ہیں جو ماڈلنگ کا شوق نہیں رکھتے۔ مگر گزشتہ روز پریس کانفرنس میں آکر انہوں نے تاریخ کی سب سے حیران کن مثال قائم کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا اس پریس کانفرنس میں آنا غلط تھا ؟ میرے نزدیک قطعا غلط نہ تھا۔ اور وہ اس لئے کہ جس صورتحال کو پاکستان کا عام شہری محض ایک سیاسی کشمکش سمجھ رہا ہے یہ درحقیقت ریاست پاکستان پر جاری وہ حملہ ہے جس میں سوشل میڈیا کی مدد سے عوام کو گمراہ کرکے اس مقام کی طرف ہانکا جا رہا ہے جہاں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے۔ اور ملک بکھر جائے۔ اس قسم کی وارداتوں کے پیچھے دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز ہوا کرتی ہیں۔ سو میرے نزدیک جنرل ندیم کی میڈیا پر آمد محض انفارمیشن شیئر کرنے کی غرض سے نہ تھی بلکہ ان کی جانب سے اندرون ملک پیادوں اور ان کے بیرون ملک "نامعلوم ڈونرز" نما سرپرستوں کو زبان حال سے دیا گیا دوٹوک پیغام تھا۔ کیا فتنہ خان جیسے چھچوندر کے لئے ڈی جی آئی ایس آئی سامنے آئے گا ؟
آپ کا کیا خیال ہے توشہ خانے کا چور کسی بیرونی شہ کے بغیر ہی اچھل کود کر رہا ہے ؟ جب اس پر دہشت گردی والی دفعہ لگی تو اچانک عالمی میڈیا نے اس پر شور اٹھایا تھا کہ نہیں ؟ یہی شور وہ آگے چل کر ہر اس موقع پر بلند کریں گے جب دیکھیں گے کہ ہماری بہت سی ٹیریان نیازیوں کا باپ خطرے میں ہے۔ اور صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ فتنے کے عالمی سرپرست بھی کھل کر سامنے آجائیں گے۔ سو میرے اندازے کے مطابق اس فتنے کو جو عدلیہ سے بار بار فیور مل رہا ہے اس سے یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ اس کے خلاف سخت گیری کا کوئی ماحول نہیں بلکہ یہ تو عدلیہ کا لاڈلا ہے۔ مگر جب فیصلہ کن گھڑی آئے گی تو اس کے چودہ طبق بھی یہی عدلیہ روشن کردے گی اور جب اس کے عالمی سرپرست ماتم کریں گے تو پاکستان کا جواب یہی ہوگا کہ وہ تو عدلیہ کا لاڈلہ تھا ۔ اپنے لاڈلے کو سزا دینے والی عدلیہ اس کی دشمن کیسے ہوسکتی ہے ؟۔یہ کھیل بہت پیچیدہ ہے۔ اسی لئے بتدریج آگے بڑھا جا رہا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھ لیجئے کہ یہ اپنی تحریک کو "جہاد" کا نام کیوں دے رہا ہے ؟ یاد ہے یہ ایک بار عسکری فتنوں کے گڑھ وزیرستان لانگ مارچ لے کر گیاتھا ؟ اور دیکھ رہے ہیں ناں کہ عین اس کی اس تحریک کے دوران سوات میں وہی فتنہ اچانک پھر سر اٹھاتا نظر آیا ہے ؟ اور یاد ہے ناں کہ جب حال ہی میں سوات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا تو وزیر اعلی خیبر پختون خوا اس میں نہیں آیا ؟ کڑیاں میں نے دے دیں، جوڑ آپ خود لیجئے۔
سو حکومت اور ادارے جو محتاط انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا مقابلہ توشے سے نہیں اس کے عالمی سرپرستوں سے ہے۔ ایک غلط چال مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ توشہ خانے کے چور کے لئے تو اپنے لوگ ٹشو پیپر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور خود یہ بھی عالمی سرپرستوں کے لئے ٹشو پیپر سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ کیا یہ گھڑی چور چالیس سال پرانے دوست نعیم الحق کے جنازے میں گیا تھا ؟ کیا یہ ارشد شریف کے جنازے میں گیا ؟ نعیم الحق اور ارشد شریف تک کا اس نے جنازہ پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی تو وہ الو کے پٹھے اس کی نظر میں قربانی کے بکروں سے زیادہ کیا اوقات رکھتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ایک معلوم اور بہت سی نامعلوم حرامزادیوں کا یہ باپ انہیں حقیقی آزادی دلائے گا ؟ یہ انہیں بس زندگی سے آزادی دلا سکتا ہے اور جب ایسا ہوگا تو ان کی لاش کو تو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرے گا مگر جنازے میں نہ آئے گا۔ بعینہ خود اس کی اپنی آخری رسومات میں بھی اس کے عالمی سرپرست شریک نہ ہوں گے۔
واپس کریں