جہانگیر اشرف
اگر آج ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو اس کا ذمہ دار صرف عمران خان نہیں بلکہ اس کو لانے والے اور سہولت کار بھی برابر کے شریک ہیں۔ دشمن کو ووٹ کے ذریعے شکست دینے والے ایک بار پھر دشمن کے بھائی کو اقتدار میں لے آئے ہیں۔ اسکا سادہ سے مطلب تو یہ ہوا کہ اصل اہداف سیاسی تھے کرپشن کا نعرہ صرف عوام الناس کو بیوقوف بننا کیلئے لگایا گیا تھا۔ مگر اس سارے کھیل میں نقصان پاکستان اور عوام کا ہوا ہے۔
سابقہ وزیراعظم عمران خان کے بقول جنرل باجوہ انکو نواز شریف کی کرپشن کی کہانیاں سنایا کرتے تھے مگر اب نیوٹرل بن کر ایک سائیڈ پر ہو گئے ہیں۔ یہ کام صرف جنرل باجوہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر آرمی چیف کرتا آیا ہے۔ 1988 میں محترم بے نظیر بھٹو جب اقتدار میں آئی تو اس وقت نوازشریف کو اسٹبلیشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی صدر کے عہدے پر فوجی مہرہ غلام اسحاق براجمان تھا اس نے آصف علی زرداری کو مسٹز ٹین پرسنٹ کا لقب دیا میڈیا میں آصف علی زرداری کو پاکستان کا کرپٹ ترین شخص قرار دیا گیا ۔ غلام اسحاق نے جب بے نظیر کی بعد نوازشریف کی حکومت کو رخصت کیا تو نگران حکومت میں آصف علی زرداری کا بطور وزیر حلف لیا۔ جس شخص کو کرپٹ کہا اسکو ہی وزیر بنایا مگر اسٹبلیشمنٹ کے اس مہرے کو ذرا بھی شرم نہیں آتی۔
کرپشن کا یہ ہتھیار 1999 تک بے نظیر اور نواز شریف کے خلاف باری باری استعمال ہوتا رہا۔ مگر اصل کرپٹ مافیاز جنرلز اور ججز کی کرپشن پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہ مقدس گائے ہیں انکا نام لینے پر سزائیں دی جاتی ہیں۔
مشرف کے مارشل لاء کے بعد بے نظیر کی پی پی اور نوازشریف کی مسلم لیگ کو اپنی غلطیوں کو ادراک ہو گیا انھوں نے ملکر میثاق جمہوریت کر لیا اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے پر اتفاق کر لیا جس کی وجہ سے فوجی جنرلز کو تکلیف ہونا شروع ہو گئی۔ انھوں پی پی اور ن لیگ کے اتحاد کے خلاف ایک نیا مہرہ عمران خان کی صورت میں میدان میں اتار دیا مگر عمران کی حکومت کی کارکردگی تمام تر سپورٹ کے باوجود سلیکٹرز کے گلے کا پھندا بن گئی ۔ اس پھندے کو اترنے کیلئے اپوزیشں نے اپنے گندھے پیش کر دیے ۔ اسٹبلیشمنٹ نے عمران کو اتار تو دیا مگر مکمل طور پر سیاست سے بیدخل نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اتحادی یا اگلی آنے والے حکومت کو زیر کنٹرول رکھتے کیلئے عمران خان جیسے جارحانہ سیاستدان کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت اسٹبلیشمنٹ ایک طرف اتحادی حکومت کو تھپکی دیتی ہے اور دوسری طرف عمران خان کو اشارہ کرتی ہے۔ یہ کھیل ہنوز جاری ہے۔ مگر اس سارے کھیل میں نقصان پاکستان اور عوام کا ہی ہو رہا ہے مگر ججز اور جنرلز کے مفادات آج بھی محفوظ ہیں کسی سیاستدان میں یہ جرآت نہیں ہے کہ اصل کرپٹ مافیاز کے سرپرستوں کا نام لے۔
1988 سے لیکر آج تک کسی سیاستدان کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہو سکی مگر پوری قوم کو کرپشن کے بیانیے کے پیجھے لگا رکھا ہے۔ پاکستان میں کرپشن مسلہ ضرور ہے مگر اصل مسلہ تجارتی خسارہ ہے 2021/2022 کے اعدادوشمار کے مطابق ہماری ایکسپورٹ تقریبآ 25 بلین ڈالر جبکہ ایمپورٹ 56 بلین ڈالر رہی جسکے معنی یہ ہوئے پاکستان کا تجارتی خسارہ 31 بلین ڈالر سالانہ ہے یعنی ہمارے خرچے 56 بلین ڈالر اور آمدنی 25 بلین ڈالر۔
بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری کی جائیداد اور دولت کی مالیت 1.80 بلین ڈالر ہے اور نوازشریف کی تمام دولت اور جائیداد کی مالیت 1.4 بلین ڈالر ہے اگر ان دونوں شخصیات سے سب کچھ لے لیا جائے اور یہ دونوں سڑک پر آجائیں تو 3.2 بلین ڈالر اگھٹے ہوں گے۔ جس کے باوجود پاکستان کا تجارتی خسارہ 27.8 بلین ڈالر سالانہ ہو گا ۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہمیں پھر بھی قرضے لینے پڑیں گے۔ اس مسلے کا حل ایمپورٹ یعنی اخراجات میں کمی اور ایکسپورٹ یعنی آمدنی میں اصافہ سے ہی ممکن ہے۔
واپس کریں