یونیورسٹی انتظامیہ کی انتقامی کارروائی ، طلبہ کے خلاف پابندی کا نوٹیفکیشن فوری واپس لیا جائے
(راولاکوٹ رپورٹ آصف اشرف) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین صغیر خان کے بیٹے کو ساتھی طالب علم کے ہمراہ قدیمی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) لاہور نے ڈسپلنری ایکشن لیتے ہوئے ان کے کیمپس داخلے پر پابندی عائد کر دی ،دونوں طلبہ کو پیپر دینے بھی روک دیا سولہ دسمبر کو یوم شہدا اے پی ایس کی تقریب منعقد کرنا جرم قرار دیا گیا دستیاب شدہ معلومات کے مطابق گزشتہ ماہ18دسمبر کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن سے متعلق طالبعلموں کو مطلع بھی نہیں کیاگیا، جس کی وجہ سے وہ گزشتہ روز سالانہ امتحان کا پیپر بھی نہیں دے سکے۔ یونیورسٹی کیمپس کے مین گیٹ پر دونوں طالبعلموں کی تصاویر اورنوٹیفکیشن چسپاں کر کے محافظوں کو یہ احکامات دیئے گئے تھے کہ انہیں کیمپس میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
سرمائی تعطیلات کے اختتام پر جب طلبہ6جنوری کو یونیورسٹی آئے تو انہیں اس نوٹیفکیشن کی بابت معلوم ہوا۔ محافظوں نے انہیں یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے سے بھی روک دیا۔
18دسمبر کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق چئیر مین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ صغیر خان کے بیٹے علی عبدللہ اور ساتھی طالب علم اقبال خان کے خلاف ڈسپلن کمیٹی نے ڈسپلنری کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ دونوں طلباء کے یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہونے پر پابندی عائد ہے۔ ڈسپلن کمیٹی کے حتمی فیصلے تک دونوں طلبہ کے داخلے پر پابندی عائد رہے گی۔ نوٹیفکیشن کے ہمراہ یونیورسٹی کیمپس کے مین گیٹ پر دونوں طلباء کی تصاویر بھی چسپاں کی گئی تھیں۔
6جنوری کو سرمائی تعطیلات ختم ہونے کے بعد جب طلبہ یونیورسٹی کیمپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے خلاف ڈسپلنری ایکشن ہوا ہے اور ان کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ اسی روز طلبہ کے سالانہ امتحانات بھی شروع ہو رہے تھے۔ یوں دونوں طلباء امتحانی پرچہ نہیں دے سکے۔ ڈسپلن کمیٹی نے دونوں طالبعلموں کے معاملہ کی سماعت کی تاہم حتمی فیصلہ آئندہ سماعت پر کیا جائے گا۔ اس طرح یونیورسٹی انتظامیہ نے دونوں طالبعلموں کو امتحانات سے محروم کر کے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچانے کی ایک دانستہ کوشش کی ہے۔
یاد رہے کہ دونوں طالبعلموں کے خلاف یہ ایکشن 16دسمبر2024کو شہداء اے پی ایس پشاور کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کی تقریب منعقد کرنے کے بعد لیا گیا ہے۔ماضی میں بھی یونیورسٹی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ان طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائیاں کر چکی ہے۔
علی عبدللہ اور اقبال خان طالبعلم رہنما ہیں۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد ان کے خلاف کاررروائی کی وجہ نظر آرہی ہے۔
اقبال خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18دسمبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوا اور جان بوجھ کر 6جنوری تک ہمیں اطلاع نہیں دی گئی، تاکہ ہمیں امتحان دینے سے محروم کیا جا سکے۔
انکا کہنا تھا کہ بغیر کسی سماعت کے ہمارے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی اور ہماری تصویریں بھی یونیورسٹی گیٹ پر چسپاں کی گئیں۔ اگر ہمیں پہلے اطلاع دی جاتی تو ہم ڈسپلن کمیٹی کے سامنے پہلے پیش ہو جاتے اور امتحان وقت پر دے دیتے۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے جان بوجھ کر ہمیں امتحان سے باہر کیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ منگل کے روز کمیٹی نے ہمیں سماعت کیا ہے، لیکن ابھی تک پابندی ختم نہیں کی گئی ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ اگلی سماعت میں لیا جائے گا۔
ادھر طلبہ تنظیموں نے اس اقدام کو علی عبدللہ اور اقبال خان کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ جے کے این ایس ایف کی جانب سے جاری بیانات میں یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔
بیانات میں کہا گیا ہے کہ 16دسمبر2014کو آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی یاد میں ہر سال ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس سانحے کے شہداء کی یاد میں تقریب منعقد کرنے پر اس طرح کی انتقامی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی منصوبے پر عمل پیرا ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
طلبہ تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں طلبہ کے خلاف پابندی کا نوٹیفکیشن فوری واپس لیا جائے اور انہیں امتحان دینے کی اجازت دی جائے۔
واپس کریں