دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئے عالمی منظرنامے کی تشکیل۔ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
No image نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے موقع پر سپرپاور امریکہ کی قیادت سنبھال رہے ہیں جب عالمی امن شدید خطرے سے دوچار ہے، سرزمین فلسطین لہولہان ہے، یوکرائن روس جنگ جاری ہے،اسرائیل ایران کشیدگی اپنے نقطہ عروج پر ہے،تیسری عالمی جنگ کے چھڑجانے کے خدشات زبان زدعام ہیں، تازہ اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا میں اپوزیشن پارلیمانی نمائندگان کے دشمن شمالی کوریا سے قریبی روابط استوار کرنے کی بناء پر مارشل لاء نافذ کردیا گیا ہے۔ایسے حالات میں عالمی امن بالخصوص متحارب ممالک کے مابین تعلقات کو نارمل کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کاممکنہ کردار عالمی میڈیا کیلئےپسندیدہ موضوع بن چکا ہے،ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں روسی صدد ولادیمیر پوتن کیلئے خیرسگالی کےتعریفی کلمات علانیہ ادا کرچکے ہیں، اسلئے ٹرمپ کی جیت سے یورپ اور یوکرائن میں بسنے والے تشویش میں مبتلا ہیں کہ پوتن کواگر نئے امریکی صدر کی حمایت میسر آگئی تو جنگ کا پانسہ روس کے حق میں پلٹ سکتا ہے،تاہم اس حوالے سے ٹرمپ کا ماضی کا ایک بیان بھی نہایت اہمیت اختیار کرگیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ یوکرین میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اورروسی صدر پوتن کے ساتھ براہ راست بات چیت میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ٹرمپ نےاپنے گزشتہ دورِ صدارت میں دونوں کوریائی ممالک کو قریب لاکردنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کوریاکے بارڈر پر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ سے تاریخی مصافحہ دنیا بھر کےٹی وی چینلزپر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہواتھا، تاہم ٹرمپ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد جزیرہ نما کوریا میں امن کی کاوشیں سردمہری کا شکار ہو گئیں ۔ٹرمپ کی اسرائیل کے ساتھ خصوصی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، انہوں نے اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں ا مریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرکے ایک نئی سفارتی بحث چھیڑ دی تھی، تاہم جوبائیڈن انتظامیہ کے دور میں اسرائیل کو غزہ میں بہیمانہ جارحیت سے نہ روکنے کی بناء پر فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھنے والے امریکی ووٹرز یموکریٹک پارٹی سے شدید نالاں تھے ، اسرائیل کی جانب سے ایران اور لبنان پرکھلم کھلا حملوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ساکھ کو مزید مجروح کیا اور پھرصدارتی الیکشن سے ایک روز قبل ٹرمپ کی اس سوشل میڈیا پوسٹ نے ہلچل مچا دی کہ کملا ہیرس اور انکی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کر کے تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دے گی،ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن کو بحال کریں۔ امریکی ریاست مشی گن میں عرب اور مسلمان ووٹ ہر مرتبہ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں، ٹرمپ کی یہاں سے جیت ثابت کرتی ہے کہ سرزمین فلسطین میں امن کے خواہاں عناصر کی امیدوں کا مرکزاب ٹرمپ بن چکے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو عسکری و سفارتی امداد جاری رکھنے کا امکان ہے اور شاید ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ بھی ہو لیکن امریکی ووٹرز نے ٹرمپ کے اس وعدے پر یقین کیا کہ وہ جنگوں کو روکیں گے۔مسئلہ کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے مابین وجہ تنازع ہے ، پاکستانی عوام کوامریکہ سے یہ گِلہ رہا ہے کہ امریکہ، اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، تاہم ماضی میں ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی خواہش کا اظہار کرکے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے تھے۔ ٹرمپ کے گزشتہ دورِ اقتدار کا ایک بہت عظیم کارنامہ ابراہام معاہدہ ہے جس پر امریکہ کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے دستخط کرکے تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کے مابین امن کی راہ ہموار کی اور مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، بعد ازاں یہ خبریں بھی میڈیا کی زینت بن رہی تھیں کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی مذکورہ امن معاہدے کا حصہ بننے جارہے ہیں ، تاہم ٹرمپ کے بعد اس پر مزید پیش رفت نہ ہوسکی اور پھر جوبائیڈن دور میں غزہ کوکھنڈرات کا ڈھیر بنادیا گیا۔ انہی عوامل کی بناء پر مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنےماضی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے وہیں سے آغاز کریںگے جہاں سے انہوں نے اپنے سفر کااختتام کیا تھا، تاہم یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ ماضی کی نسبت مختلف ثابت ہونگے۔ میری نظر میں رواں برس کرما کے سال نے ماضی کے ہر حکمران کویہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا مداوا کرے بصورت دیگر خمیازہ بھگتنے کیلئے تیار ہوجائے، ٹرمپ کا شمار بجا طور ایسے باہمت اور قسمت کے دھنی افراد میں کیا جاسکتا ہےجنکی فتح نے ثابت کیا کہ اگر ایک انسان جیت کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں عبور کرنے کیلئے پُرعزم ہو اور اوپر والا بھی اسکے ساتھ ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسکا راستہ نہیں روک سکتی۔مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے ابراہام معاہدہ کو فعال بناتے ہوئے مزید وسعت دینے کی کوشش کریں گے لیکن یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ تنازع کے ایک بڑےعلاقائی فریق ایران کے ساتھ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں دوطرفہ تعلقات کشیدگی کی انتہا کو پہنچ گئے تھے، ماضی میں امریکی اداروں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ایران ٹرمپ کی جان لینے کے درپے ہے، تاہم حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے ٹرمپ پر ممکنہ قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی باضابطہ تردیدکوایک اہم پیش رفت قرار دیاجارہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک گھاگ اور تجربہ کار ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی بطور ثالث عالمی تنازعات کا دیرپا حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوگی،ٹرمپ لگی لپٹی رکھے بغیر عملی اقدامات کے قائل ہیں، انہوں نے ماضی میں بھی غیرروایتی اقدامات اُٹھا کر دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا، اگر وہ اب کی بار متحارب ممالک کے مابین ثالث کا کردار نبھاکر جنگوں کو روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توانکی زیرقیادت سال 2025ء نئے عالمی منظر نامے کی تشکیل کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔
واپس کریں