شرافت رانا ایڈووکیٹ
ایک مطیع اللہ جان ہی نہیں پیپلز پارٹی کا ہر مخالف خوش نصیب ہوتا ہے۔ جب بھی اس پر برا وقت اتا ہے تو اسے مفت کے وکیل بہت سارے دستیاب ہو جاتے ہیں اور تو اور جمہوریت پسند اور خود پیپلز پارٹی کے کارکنوں اس کے حق میں لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
آج صبح سے سوشل میڈیا پر یہ تحریر چل رہی ہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف جو ایف آئی ار درج کی گئی ہے ۔ وہ مضحکہ خیز ہے۔ مطیع اللہ جان بیچارا تو سگریٹ بھی نہیں پیتا ۔ اس پر آئس پینے کا الزام لگا دیا گیا اور اسی طرح آئس کی مبینہ برامدگی کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔
یقینی طور پر یہ ایک گھٹیا ۔ غلط اور فضول ایف آئی آر ہے ۔ ریاست کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن کبھی اہل صحافت اس بات پر غور کریں گے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز احمقانہ ۔ فضول ۔ لغو مقدمات کس کے خلاف درج کیے گئے اور ان مقدمات پر مطیع اللہ جان کا اس کے ہم نواؤں کا اور صحافت کے بڑے بڑے ٹائیکونز کا کیا رویہ تھا۔
آصف علی زرداری کو جب گورنر ہاؤس لاہور سے 1996 میں گرفتار کیا گیا ۔ تو دو لاکھ بار سے زائد اخبارات میں یہ سٹوری شائع ہوئی اور تمام صحافیوں نے اس کی تائید کی اور بار بار اس کو شائع کرتے رہے کہ اس وقت آصف علی زرداری کے پاس دو ارب روپے کیش موجود تھا ۔ اور دو ٹن سونے کے بسکٹ موجود تھے۔ جن کے ذریعے وہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کی خریداری کر رہے تھے۔
دونوں الزامات کی برآمدگی کبھی کسی عدالتی مثل یا ریکارڈ پر نہیں دکھائی گئی۔
لیکن اج تک مطیع اللہ جان کو بھی یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ لکھ پاتا کہ یہ کہانی جھوٹی تھی اور آصف علی زرداری کو خالی ہاتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
سرے محل کا تماشہ سالہا سال تک چلایا گیا۔ ثابت کر دیا گیا کہ برطانیہ میں کوئی جائیداد ہے ۔ جس کی ملکیت آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو یا اس کے بچوں کے نام ہیں۔ کسی بھی ڈاکومنٹ دستاویز بے نظیر بھٹو آصف علی زرداری یا بچوں کے وہاں ایک بھی دورہ کے فوٹو سیشن کے بغیر اس سٹوری پر 90 فیصد پاکستانی یقین کرتا ہے۔ کبھی کسی مطیع اللہ جان نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ملکیت کی کوئی دستاویز تو سامنے لائی جانی چاہیے۔ کبھی راک وڈ اسٹیٹ میں بے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کے ایک دفعہ کے جانے کی تصویر یا رپورٹ سامنے انی چاہیے۔ کبھی یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ اگر یہ مبینہ جائیداد لندن میں آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو کی ملکیت ہے تو جب وہ لندن کا دورہ کرتے ہیں تو وہ یہاں پر قیام کیوں نہیں کرتے۔
یہ سب باتیں میڈیا کو میڈیا میں موجود دیانت دار ترین صحافیوں کو مضحکہ خیز نہیں لگتی تھی۔
آصف علی زرداری کے ایما پر سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے ایک مبینہ برطانوی شہری جو کبھی پاکستان انا ثابت نہیں ہوا کو کراچی ایئرپورٹ سے اغوا کر کے اس کی ٹانگ سے بم باندھ کر 1990 میں پانچ لاکھ پاؤنڈ حبیب بینک کی اے ٹی ایم سے نکلوا لیے تھے۔ 20 سال تک اس خبر کو لاکھوں بار شائع کیا گیا ۔ کبھی کسی مطیع اللہ جان نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان میں کسی بھی اے ٹی ایم سے پاؤنڈ نہیں نکلتے اور یہ تو آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ لندن میں بھی کسی اے ٹی ایم سے پانچ لاکھ پاؤنڈ نہیں نکلوائے جا سکتے۔
آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کے لیے اخبارات میں کچھ بھی لکھ دیا جائے۔ چینل پر بیٹھ کر کچھ بھی کہہ دیا جائے ۔ میڈیا میں کوئی بھی جعلی فرضی سچی جھوٹی رپورٹ شائع کر دی جائے۔
اس کا مبنی بر عقل ہونے کا تجزیہ کرنا صحافت کی نظر میں جرم ہے ۔ اس جرم میں مطیع اللہ جان ہی نہیں دیانتدار ترین اعلی ترین اقدار کے مالک سچے اچھے سب صاف ہی شامل رہے۔
کیا اب یہ وقت نہیں اگیا ہے کہ تمام لوگوں کے خلاف لگائے جانے والے ریاستی الزامات کا دیانت داری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے۔ اور جس طرح آج میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مطیع اللہ جان سے آئس کی برآمدگی کے بارے میں کہانی لکھنا مضحکہ خیز ہے ۔ اسی طرح اہل صحافت یہ طے کر لیں کہ پیپلز پارٹی جمہوریت پسند یا عوامی نیشنل پارٹی کے لوگوں کے خلاف جب جھوٹی مہم چلائی جائے گی تو وہ بھی سچ بولنے کی کوشش کریں گے لیکن شاید ابھی وہ وقت نہیں ایا۔
واپس کریں