فائنل کال،حتمی فائنل کال، آخری فائنل کال اور انتہائی آخری حتمی کال
شرافت رانا ایڈووکیٹ
گذشتہ روز کے بدترین فائنل کال احتجاجی مظاہرہ میں سیاست کے طالب علم کے لیے ایک اہم سبق موجود ہے۔ اس سے قبل عمران خان احتجاج کے لیے براہ راست اسد قیصر ،علی امین گنڈا پور ، بیرسٹر گوہر یا پارٹی کی دیگر قیادت سے رابطہ اور مشاورت کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کو مستقبل میں بھی سیاست کرنا ہے اس لیے وہ کوئی نہ کوئی ایکٹیویٹی کیا کرتے تھے۔ اس بار محبی عمران خان نے ثابت کیا کہ انہیں پارٹی میں کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ یہ بات میں عرصہ دراز سے لکھ رہا ہوں جب سے عمران خان سیاست میں ائے ہیں ۔ میں بار بار لکھتا ہوں کہ عمران خان خود پرست ، نفسیاتی مریض ہیں وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔
عمران خان نے زندگی میں اپنی ذات کے علاوہ اعتماد صرف اور صرف محترمہ بشریٰ بیگم پر کیا ہے اور وہ بھی اپنی ضرورت کے لیے ان کی مبینہ ماورائے فطرت طاقتوں کے دھوکہ میں کیا ہے ۔
موجودہ پوری مہم کو محترمہ بشریٰ بیگم لیڈ کر رہی تھیں۔ جب سے محترمہ بشری بیگم بنی گالہ منتقل ہوئی ہیں ۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے سے ، اس کے بعد سے ، اج تک ان کی شہرت یہ نہیں رہی ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں ۔ کارکنان سے ملاقات کرتی ہیں ۔ ان کے مسائل کو سنتی ہیں ۔ ان کے حل کے لیے کوئی جدوجہد کرتی ہیں یا کوشش کرتی ہیں ۔
ان کی زندگی کا پورا اثاثہ دو زاویوں میں ہے۔
پہلے وہ عمران خان کی جان کی حفاظت اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے کالا ،سفید ، نیلا ، پیلا گورا علم ، عمل کرتی ہیں ۔ وہ جنات اور ماورائے فطرت قدرتوں سے کام لینے کے لیے اپنے اعمال میں مصروف رہتی ہیں ۔
دوسرا وہ مختلف ذرائع سے مبینہ طور پر بھاری رقوم کی وصولی اور ملک کے بڑے بڑے صنعت کاروں ۔ بیوروکریٹس اور مافیا سے پیسے لے کر کام کرواتی تھیں ۔
اس موجودہ صورتحال میں کوئی بھی وزیراعلی پختون خواہ ہوتا وہ اپنی احتجاجی مہم چلانے کی قوت کو کسی اور کے نام سے پیش کر کے کسی اور کو اپنے سے قد میں بڑا کیوں کرے گا ۔
پختون خواہ کی پی ٹی آئی کے تمام لیڈروں نے اتفاق کر کے عمران خان کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ محترمہ بشریٰ بیگم کی اوقات نہیں ہے کہ وہ عوام کو گھروں سے باہر نکال کر کسی قربانی پر قائل کر سکیں ۔
عوام کو سڑک پر لانے کے لیے یہ اعتماد دینا ہوتا ہے کہ کل کو اگر حکومت نہ ہوئی تو اسد قیصر یا علی امین گنڈاپور تمہاری سرپرستی نہیں چھوڑے گا۔
اور اسی طرح آج اگر پختون خواہ میں یہ حکومت میں ہیں پی ٹی آئی حکومت میں ہے ۔ تو وہ کارکن کو کیا تحفظات فراہم کر سکتی ہے کیا مراعات دے سکتی ہے۔
بدقسمتی سمجھئے یا خوش قسمتی سمجھیے محترمہ بشریٰ بیگم کے پاس ایسا کوئی چورن بیچنے کے لیے نہیں ہے۔
کچھ دوست یقینی طور پر محترمہ بشریٰ بیگم کی سیاست میں آمد کو محترمہ نصرت بھٹو کی سیاست میں آمد کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
بھائی محترمہ نصرت بھٹو جس روز ذو الفقار علی بھٹو کے عقد میں ائی تھیں۔ اس کے بعد سے وہ بھٹو کے ہر کارکن کو اپنا بیٹا کہتی تھیں ۔ سمجھتی تھیں ۔ مانتی تھیں ۔ملتی تھیں اور ان کے کام آنے کی کوشش کرتی تھی۔
اس لیے جب برے وقت میں انہیں سیاسی قیادت کے لیے اگے انا پڑا تو وہ پورے ملک میں ہزاروں کارکنان کو نہ صرف ان کے نام سے شناخت کرتی تھیں ۔ بلکہ ان کے لیے کبھی نہ کبھی کوئی اچھا کام بھی کر چکی تھیں ۔
سیاسی طور پر غیر فعال بیوی خاوند کے جیل جانے کے بعد مہم چلانے میں مشکلات کو محسوس کرے گی۔
دیکھتے ہیں کہ اب فائنل کال کے بعد حتمی فائنل کال اور پھر اس کے بعد آخری فائنل کال اور پھر اس کے بعد انتہائی آخری حتمی کال دینے میں عمران خان کتنا وقت لیتے ہیں۔
عمران خان کا یہ بھی مسئلہ ہم پہلے روز سے نشاندہی کر رہے ہیں کہ وہ بہت جلد باز ہیں۔ ان کے لیے ایک مہینہ بھی جیل میں گزارنا مشکل تھا اس لیے ہر مہینے میں وہ کم از کم دو کالز دیتے ہیں کہ انہیں یہاں سے نکالا جائے ۔ چھڑایا جائے۔
ہر مہینے یہ سات دن کے نوٹس پر پورے ملک کو موبلائز کرنا عملی طور پر سیاسی کارکن کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے۔
واپس کریں