شرافت رانا ایڈووکیٹ
پاکستان پیپلز پارٹی آج افواج پاکستان سے محبت کا اظہار کر رہی ہے اگر آئندہ کوئی جماعت ایسا کرے تو اسے اس بات کا طعنہ نہ دیا جائے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی مانند اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرنے کی عادی رہی ہے۔
برادر Faiz ullah Khan نے ایک پوسٹ کی صورت میں یہ سوال کیا ہے.
اس کے بعد ہم پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی پالیسی کے درمیان موجود فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
افواج پاکستان سے محبت ایک دلچسپ موضوع ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی یہ کہتی ہے کہ اچھی آئین سازی اور قانون سازی کے ذریعے سیاسی امور میں عدلیہ اور فوج کی کی مداخلت کو کم سے کم کیا جائے تا انکہ ملک ایک کامل جمہوری سپریمیسی میں تبدیل ہو جائے۔
پاکستان پیپلزپارٹی یہ کہتی ہے کہ موجودہ صورتحال میں میں آرمی چیف سے لےکر حوالدار اور لانس نائیک بھی آئین شکنی اور قانون شکنی کرتے وقت یکساں مستقل مزاج رویہ رکھتے ہیں۔
یہ تصور کرنا غلط ہوگا کہ کوئی ایک جنرل کسی خاص وقت پر جمہوریت پسند تھا اور دوسرا جنرل اسی وقت میں جمہوریت دشمن تھا۔
اسی طرح کی پالیسی پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی یہ کہتی ہے کہ اعلی عدلیہ کا پاکستان میں موجود نظام ایک خاص صوبے کی حد سے زیادہ برتری پر مشتمل ہے۔
صوبائی عصبیت اور برتری کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس کا تقرر کچھ اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ جمہوریت پسند اعلیٰ عدلیہ میں پہنچ ہی نہیں پاتے ۔
اعلیٰ عدلیہ میں ایسے ججوں کی وافر مقدار موجود ہے جو مقدس حکمرانوں کی مثال دے کر بتاتے ہیں کہ وہ اس طرح کے مقدس اوتار ہیں اور وہ آئین اور قانون کو کچھ نہیں سمجھتے بلکہ اللہ اور اپنے ضمیر کو جواب دہ ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی عدلیہ کا سٹرکچر ایسا چاہتی ہے کہ تمام صوبوں کو اس میں برابر نمائندگی ملے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج ایسے چاہتی ہے جو اپنے آپ کو آئین اور قانون کے محافظ سمجھیں اور ان پر ایمان اور یقین پختہ ہونے کا دعوی کریں ۔ مذہب اور مقدس حکمرانوں کا نام لے کر آئین اور پارلیمانی بالادستی کے تصور کا انکار کرنا پاکستان پیپلزپارٹی کی نظر میں اعلی عدلیہ کے ججز کی جانب سے غداری کا فعل ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ پاکستان کی فوج اور اعلی عدلیہ پاکستانی عوام پر مشتمل ہے۔
جرنیلوں اور ججوں میں ہر وقت کسی نہ کسی پاکستانی کے رشتہ دار موجود ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر شپ کا یہ کہنا ہے کہ یہ ہمارے بچے ہیں ہم نے ہی انہیں آئین اور پارلیمان کی سپریمیسی کا سبق سکھانا ہے۔
اور یہ سبق سکھانے کے لئے ہمیں کسی جرنیل یا جج کو قتل نہیں کرنا بلکہ پارلیمان کے اندر ایسی قانون سازی کرنی ہے کہ یہ قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنے کے عادی ہو سکیں۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا تصور جو میڈیا مسلم لیگ نواز اور عمران خان کی جانب سے پیدا کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو جرنیلوں اور ججوں کو جیل بھیجیں گے ۔ میڈیا مسلم لیگ نواز اور عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں موقع ملا تو ہم ججوں اور جرنیلوں کو قتل کر دیں گے۔
اس تصور کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ منوانا میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔
سول سپریمیسی کا مطلب محض یہ ہے کہ جب بھی آپ کو سپیس ملے ، موقع ملے تو آپ پارلیمان کے اندر بیٹھ کر اچھی سے اچھی قانون سازی کرکے ملک کو مکمل جمہوری ریاست میں تبدیل کر دیں۔
میں چاہوں گا کہ برادر فیض اللہ اپنی تحریر مجھ ناچیز کی معروضات پڑھنے کے بعد دوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں۔
واپس کریں