دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
محکمہِ پولیس اور درپیش مسائل
طاہر چوہدری ایڈووکیٹ
طاہر چوہدری ایڈووکیٹ
پولیس وہ محکمہ ہے جسے غالبا سب سے زیادہ تنقید اور دشنام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خرابیاں بہت ہیں لیکن اس محکمے میں کام کرنے والوں کے مسائل سنیں تو الگ ہی حقائق آشکار ہوتے ہیں۔
وکالت کی روزمرہ روٹین میں پولیس افسران و اہلکاروں سے آمنا سامنا اور ملاقات رہتی ہے۔ کل پولیس آفیشلز کو درپیش مسائل بتاتی ایک مختصر تحریر نظر سے گزری تو سوچا آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ اس محکمے میں سب اچھے نہیں تو سب برے بھی نہیں۔ دہش ت گردی کیخلاف جنگ میں فوج سے زیادہ پولیس نے قربانیاں دیں۔ پولیس کے جوان و افسران زیادہ شہید ہوئے۔ بس یہ ہے کہ ان کی شہادتوں پر اس طرح خراج تحسین نہیں پیش کیا جاتا، میڈیا پر پیکج نہیں چلائے جاتے جس طرح فوجی جوان کی شہادت پر ہوتا ہے۔ بے وقت اور اس طرح کی موت کسی کی بھی ہو انتہائی افسردہ اور غمگین کر دینے والی ہوتی ہے۔ تاہم دکھ تب ہوتا ہے جب فوجی جوان کیلئے شہید اور پولیس اہلکار کیلئے جاں بحق لکھا جاتا ہے۔
خیر، بات طویل ہو جائے گی۔ نیچے کاپی کی تحریر کی چن سطریں پڑھیں۔
"پولیس کے تفتیشی افسران انسان ہیں یا جن؟

ایک تفتیشی کے پاس اوسطاً 50 سے 60 زیر تفتیش مقدمات، ان کی انکوائری کرنا، ملزمان گرفتار کرنا، دور دراز کے علاقوں میں ریڈز کرنا، عدالتوں میں پیش کرنا ، تبادلہ ہونے پر دوسری عدالتوں میں شہادت کے لیے جانا ، نمونہ جات لیب میں جمع کروانا، DNA کروانے لاہور جانا، اردل روم میں پیش ہونا ، وہاں صاحب بہادر کا گھنٹوں انتظار کرنا، روڈز کھلوانا، پروٹوکول اور سپیشل ڈیوٹی کرنا، ماہانہ کار گزاری پوری کرنا، سزاؤں پر اپیںل کرنا، روزانہ کی بنیاد پر ان گنت درخواستوں کی انکوائری کرنا، پراسکیوشن کے پاس چالان پاس کروانا، 15 پر ریسپونڈ کرنا، پوری رات گشت کرنا، کئی کئی دن گھر نہ جانا ،نہ خوشی نہ غمی نہ بیوی بچوں اور ماں باپ کو ٹائم دینا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ حقیقی پولیس اصلاحات کوئی نہیں کرنا چاہتا، ہمارے حکمران اور بیوروکریسی جان بوجھ کر پولیس اصلاحات اور سہولیات تھانہ لیول تک نہیں پہنچنے دیتے کیونکہ ان سب کے مفادات سیاست زدہ پولیس سے جڑے ہیں ۔ ان مفادات کے تحفظ کےلیے پولیس کے چھوٹے ملازمین کانسٹیبل تھانیدار کو ولن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اپنی نفرت کی عینک اتار کر پولیس والوں کو انسان سمجھ کر دیکھیں ۔آپ کو ان کے درد کا احساس ہوگا۔
یاد رکھیں۔ پولیس ہمارے معاشرے کا عکس ہیں۔ پولیس والے بھی اتنے ہی ایماندار ہیں جتنا کہ ہمارا معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ۔۔۔

پولیس کے یہ کانسٹیبل اور تھانیدار سب سے زیادہ سہولیات اور پروٹوکول کے حق دار ہیں ۔پورا پولیس کا محکمہ انہی پر چلتا ہے۔ایک مزدور بھی 8 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ اور پولیس کہ ڈیوٹی، کوئی اوقات کار ہی نہیں۔"
طاہر چودھری، ایڈووکیٹ ہائیکورٹ، لاہور۔
واپس کریں