دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک ٹوٹنے کی بات اگر ولی خان کرتے؟
اجمل خٹک کثر
اجمل خٹک کثر
سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو بیان دیا،تصورکریں کہ آج اگرخان عبدالولی خان زندہ ہوتے اور اسی طرح کابیان دیتے توکیا ملکی اداروں سمیت سیاسی جماعتیں اورمختلف مذہبی عناصر اسی طرح خاموش رہتے؟ پہلے وہ بیان پڑھ لیں جو2جون کے اخبارات میں شائع ہوا،سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہو جائے گی اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہوں گے‘اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں یہ خود بھی تباہ ہوں گے اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔آج کے نوجوان جن کی بلاشبہ بڑی تعدادعمران خان کی کرشماتی شخصیت کی اسیر ہے، شاید اس حقیقت سے واقف نہ ہوں کہ اس طرح کے بیانات ماضی یا حال ہی میں اگر کوئی اور رہنما دیتاتو اس کے خلاف کتنا بڑاطوفان اب تک برپا ہوچکاہوتا۔آئیے چند مثالیں سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ محض صوبائی خودمختاری، سول بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے لیے جدوجہدوتقاریر پر مرحوم ومغفور خان عبدالولی خان کو جن صعوبتوں کاسامنا کرنا پڑا،اِس کے تناظر میں کیا عمران خان خوش قسمت نہیں؟ ولی خان صاحب قیام پاکستان کے بعد 15جون 1948کو گرفتار ہوئے اور کسی عدالت میں پیش کئے بغیرہی 5سال 5مہینے اور5دن تک پسِ زنداں رہے۔ آپ کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی۔ 14نومبر 1953کو آپ کو فیڈرل کورٹ نے رہا کیا۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک کے دوران باچا خان، ولی خان سمیت 5ہزار کارکنان جیل میں تھے۔ ان میں سے بعض کو عمر قید اور جائیدادوں کی ضبطی کی سزا بھی ہوئی۔ ان اسیروں کو اپنے صوبے سے باہر مچھ، ملتان اور ساہیوال جیلوں میں رکھا گیا تھا، ان جیلوں سے 17سرخ پوشوں کے جنازے سرحد (پختونخوا) آئے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ غداری کی ایسی ہی تہمتیں برداشت کرنے والے عبدالصمدخان اچکزئی شہید جہاں برسہا برس جیلوں میں رہے وہاں ون یونٹ کیخلاف جدوجہد کے وہ پہلے اسیر تھے اور سب سے آخر میں رہاہوئے۔ہم ذکر ولی خان کا کررہے تھے۔ جون 1968ءمیں ولی خان نیپ کے مرکزی صدر بنے۔ 13نومبر کو گرفتار کرلئے گئے اور مارچ 1969ءمیں رہا ہوئے۔ 8فروری 1975کو بم دھماکے میں حیات محمد شیر پائو کے انتقال کے بعد اسی رات لاہور سے آتے ہوئے گجرات کے قریب گرفتار کرلئے گئے اور 1977ءمیں عدالت کے حکم پر رہائی ملی۔حیدرآباد سازش کیس میں اس کے ماسوا کچھ نہ تھا کہ ولی خان اور ان کی جماعت کے منشور میں چوں کہ صوبائی خودمختاری شامل ہےلہٰذا یہ علیحدگی کے مترادف ہے،یوںان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرناجائز ہے۔

اس کیس میں آپ کے خلاف 500سے زیادہ گواہ تھے،آپ جیل میں تھے اور 19مہینے میں صرف 22گواہ پیش ہوئے۔ اس سست روی پر ولی خان صاحب نے جج سے کہا جناب عالی! آب حیات کا انتظام کیجئے۔ آپ خود بھی پی لیں، مجھے اور گواہوں کو بھی پلادیں تاکہ مقدمے کے فیصلے تک سب زندہ رہیں۔ولی خان پر چار مرتبہ قاتلانہ حملے ہو ئے۔ آپ کی جماعت نیپ پر دو مرتبہ26نومبر1971ءاور 9فروری 1975ءکو پابندی لگی۔ بھٹو مرحو م جب قومی اسمبلی میں قائد ایوان تھے تو آپ قائد حزب اختلاف تھے۔یہ چند مثالیں ہیں کہ آپ نے جب بھی کسی حکمران کی اصولوں کی بنیاد پر مخالفت کی تو آپ پر فوری غداری کے فتوے لگائے گئے۔

اُس زمانے میں معروف کارٹونسٹ یوسف لودھی کے ایک کارٹون کو بہت شہرت ملی، جس کا عنوان تھا’’ولی خان تاحکمِ ثانی محبِ وطن قرار دیدئیے گئے۔‘‘ راقم کے زمانۂ طالب علمی میں خان صاحب کراچی پریس کلب آئے، خطاب کے بعد ایک صحافی نے جذباتی انداز میں سوال کیا، سناہے آپ پاکستان توڑنا چاہتے ہیں؟ ولی خان کا جواب تھا، بیٹا!آپ نے’ سنا‘ ہے میں پاکستان توڑنا چاہتا ہوں، نہ جانے کب توڑوں گا، لیکن جنہوں نے توڑا ہے،اُن کو آپ نے کیا سزا دی...؟ ولی خان کہا کرتے تھے اگر ہم غدار ہیں تو کوئی یہ ثابت کرے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد کب اور کتنی مرتبہ مسلح بغاوت کی؟ ہماراکہنا صرف یہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم خواہ مسند پر ہو یا مسند سے سبکدوش ہو چکا ہوجو کچھ کہہ رہا ہوتاہے وہ دیگر کی نسبت زیادہ اہم،معلومات افزا وحسا س ہوتاہے، لیکن اس کے باوجودکیا اس بیان پر خاموشی معنی خیز نہیں ؟
بشکریہ: جنگ
واپس کریں