دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ دیش سے سیکھنے کی ضرورت
اجمل خٹک کثر
اجمل خٹک کثر
سوشل میڈیا پر ایک تحریر نظر سےگزری جس میں طنزیہ کہاگیا کہ پاکستان سے گارمنٹس انڈسٹری کی منتقلی کے بعدبہت جلدیہاں کے خوبصورت، گھبرو نوجوانوں کی فوج ظفرموج ’’چارفٹ‘‘کے کالے بنگالیوں کے دیس منتقل ہونے والی ہے‘‘۔آگے جاکر یہ دل جلاخود ہی اس کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے کہ’’ سرمایہ داروں، کاروباری حضرات کی بات اور ہے لیکن خدانہ کرے کہ وہ دن آئے جب ’’خوددار‘‘پاکستانی دنیاکے واحد ’’نظریاتی‘‘ملک سے اُن بنگالیوں کے نوکر بننے جائیں جنہیں ہمیشہ اُنہوں نے بطور آقا غلاموں کی نظرسے دیکھا ‘‘۔اس تحریرسے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ ہم جنہیں اپنی معیشت پر بوجھ سمجھتے تھے، آج اُن بنگالیوں کی معیشت پر ایک جہاں رشک کناں ہے، ‘‘16اگست2021کو اپنے یوم آزادی کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے بنگلہ دیش نے جو اعدار و شمار جاری کئے تھے اُس کے مقابل ہمارے پاس ماسوائے خیالی پلائو کے کچھ بھی نہ تھا۔بنگلہ دیش کی معیشت کا حجم 338 ارب ڈالر جبکہ پاکستانی معیشت کا حجم صرف 264 ارب ڈالر، بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 2064 جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1271 ہے، بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 52 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 21 ارب ڈالر ہیں، گزشتہ 50 برسوں میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ اوسطاً 7.9 جبکہ پاکستان کی 1.5 رہی، بنگلہ دیش میں غربت کی شرح 20 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے، بنگلہ دیش میں خواندگی کی شرح 90 فیصد ہے۔

ڈاکٹر خیال امروہوی نے1985 میں ایک مقالہ لکھا تھا’’38سالہ تلخ تجزیہــ‘‘اُس وقت پاکستان بنے 38سال ہوچکے تھے،جس کے بعد ہم مزید 37سال کا سفر طے کرچکے ہیں،حیران کن امر مگر یہ ہے کہ تجزیے میں جن مسائل کا ذکر کیا گیا وہ نہ صرف جوں کے توںہیں بلکہ ہم مزید تنزلی کا شکار ہوچکےہیں۔جبکہ ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش سے متعلق معاشیات کے ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی تک پہنچنے کیلئے مزید 10سال درکار ہیں،مگروہ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ ان دس سال میں پھر بنگلہ دیش ترقی کے سفر میں کتنا آگے پہنچ گیا ہوگا۔آئیے خیال امروہوی کے مقالے کی کچھ سطور میں ماضی وحال میں مطابقت تلاش کرتے ہیں 1985کے اپنے اس مقالے میں وہ لکھتے ہیں ’’ہمارے ملک کی38سالہ تاریخ کے اوراق انسانی استحصا ل کے ایسے بھیانک واقعات سے بھرے ہوئے ہیں کہ غالباً سابقہ اقوا م کے تین ہزار سال بھی اس کی برابری نہ کرسکیں۔یہاں دین اسلام’’جمہوریت‘‘ سوشلزم، ملکی سلامتی کے نام پر کیا کچھ کارنامے انجام نہیں دیے گئے، اربوں روپیہ کس طرح مفلس آبادی کی جیبوں سے نکال کر غیر ملکی بینکوںمیں جمع کردیا گیا۔ پاکستانی عوام اسی طرح بالادست طبقات کے غلام ہیں جس طرح یونان، کارتھیج اور روما کی حکومتوںمیں ہوتے تھے۔ آج بھی لاکھوں بے روزگار مفلس اور سیلاب زدہ مخلوق خدا ہی کو پکار رہی ہے لیکن ’’خدا والے‘‘آج بھی انہیں یہی تسلی دے رہے ہیں کہ تمہارے مقدر میں جو لکھ دیا گیا اس پر صابر و شاکر رہو،38سال کی افسر شاہی نے پاکستانی تمدن کو اس طرح روند ڈالا ہے جس طرح ابرہہ کے بدمست دیو ہیکل ہاتھی اپنی فوج کو کچلتے ہوئے نکل گئے تھے۔ ہمارے پلاننگ ڈویژن اور محنت کے محکموں نے افرادی قوت کو اس طرح برباد مفلس اور بے روزگار کردیا ہے کہ قوم عاد، ثمود، عمالقہ اور قوم لوط کی بربادی بھی اس بربادی کے مقابلےمیں صفر کادرجہ رکھتی ہے۔ تحفظ خویش، ذاتی منفعت اور لاقانونیت کے اس طوفان میں پاکستانی ’’آئیڈیالوجی ‘‘چیونٹی کی طرح رینگتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ کس قسم کی اطاعت ہے جو انسان کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیسے چلی جارہی ہے اور اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا،اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کے بنتے سنورتے دیر لگتی ہے لیکن بننا اور سنورنا تو اس وقت ہی ممکن ہےجب بگاڑ کم اور بنائو کا رحجان زیادہ ہو، 38سال سے یہ ملک قرضوں اور خیرات پر پل رہا ہے،اس دوران ہم اس قابل نہ ہو سکے کہ اپنی زندگی کو کسی مثبت نظام کے تحت تشکیل دے سکیں،یہاں عوام کے اختیار میںکچھ بھی نہیں، سب کچھ دولت مندوں اور بااختیار لوگوں کے قبضے میں ہے‘‘ڈاکٹرخیال امروہوی کے مقالے کے تناظرمیں سوال کیاجاسکتاہےکہ پاکستان میں اقتدار میں آنے والے اگردرحقیقت ملک وملت سے مخلص تھے توبنگلہ دیشی حکمرانوں کی طرح وہ ملک کو ترقی کی راہ پر کیوں گامزن نہ کرسکے؟ نیز کیا موجودہ حکمرانوں کو بنگلہ دیشی حکمرانوں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں؟
بشکریہ جنگ
واپس کریں