اجمل خٹک کثر
تاریخ پر نظررکھنے والے اہلِ علم کا کہنا ہے کہ مملکت خدادادپاکستان کو 1971سے بھی زیادہ خوفناک صورت حال کا سامناہے،ان کاکہنا ہے کہ اگرچہ 1971میں ملک دولخت اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیاتھالیکن بقول ذوالفقارعلی بھٹوشکراس پر تھا کہ باقی پاکستان بچ گیا تھا۔70کی دہائی کا بحران حادثاتی سے زیادہ خودساختہ تھا، بعض قوتیں دانستہ مشرقی پاکستان سے جان چھڑاناچاہتی تھیں، اس کی بڑی وجہ سیاست میںاُن پڑھے لکھے باشعوربنگالیوں کی اکثریت تھی جو مغربی پاکستان کے حکمران طبقات یعنی مقتدرہ، سول وفوجی بیوروکریسی، جاگیرداروں اور مذہبی عناصر کی اجارہ داری کی راہ میں مزاحم تھی۔یہی وجہ ہے کہ مغربی پاکستان میں مشرقی پاکستان کے معیشت پر بوجھ ہونے کا تاثر عام کیا گیا، کہا جاتا تھا کہ آئے روز مشرقی پاکستان میں سیلاب آتے ہیں اور مغربی پاکستان کی معیشت بہا کر لے جاتے ہیں، چنانچہ 1970کے عام انتخابات میں جب شیخ مجیب الرحمٰن نے 300میں 160نشستیں حاصل کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی تو اقتدارکی منتقلی میں روڑے اٹکاتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹوکی اُس پیپلز پارٹی کو اقتدارمیں لانے کا منصوبہ بنایاگیا جس کے پاس صرف 81نشستیں تھیں،یہ منصوبہ بالآخر کشت وخون سقوط ڈھاکاپر منتج ہوا۔
حیرت انگیز مگر عبرتناک منظر نامہ یہ ہے کہ آج پاکستان اُس بنگلہ دیش سے ترقی، امن وروزگارمیں کوسوں پیچھے ہے جسے ’’بوجھ‘‘ کہا جا رہاتھا۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہےکہ سابقہ مشرقی پاکستان موجودہ پاکستان پر بوجھ نہ تھا بلکہ بنگالیوں کے متوسط طبقے کے سیاستدان موجودہ پاکستان کے بالادست طبقات کی لوٹ کھسوٹ میں رکاوٹ تھے۔آج کی خطرناک صورتحال بھی انہی حکمران طبقات کی پیداکردہ ہے جو بظاہر ماضی کے بحران میں نظریہ پاکستان کا نعرہ تو لگاتے رہے، لیکن درحقیقت وہ متحدہ پاکستان کے خلاف برسر پیکار تھے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک کے دولخت ہونے کے عمل سے بھی یہ طبقات مستفید ہوئے اور آج بھی موجودہ غریب کش صورتحال میں یہ طبقات مزید توانا ہورہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی وہ حکومت جو اپنے ساڑھے تین سالہ دورمیں ملکی معیشت کو درست سمت دینے میں ناکام ہوئی، بلکہ اسے مزید ابتربنایاوہ دوبارہ اقتدارمیں آنے پر کیونکر اور کس الہ دین کے چراغ کی بدولت معیشت کو بہتربنانے میں سرخ رو ہوپائے گی۔ دوسری طرف اتحادی حکومت بھی اضداد کا پیکر ہے۔ ہم ان سطور میں عمران خان کے ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے جیسے اعلانات پر یہ کہہ کر تنقیدکرتے رہے ہیں کہ عمران خان جو اس قدر بڑے دعوے کررہے تھے کیا اُنہیں اندازہ نہیں تھاکہ اُن کا واسطہ کس طرح کی معیشت سے ہوگا،اگراندازہ نہ تھا توپھر تو وہ وزارت عظمیٰ ہی کے اہل نہ تھے کہ جو یہ تک نہ جان سکے کہ ملکی صورتحال کیسی ہے۔ اگراندازہ تھا توپھر وہ ظاہر ہے عوام کو دھوکہ دے رہے تھے۔
اب ہمارا یہی کہنا موجودہ’’تجربہ کار‘‘ حکمرانوں کے بارے میں ہے کہ کیا اُنہیں اندازہ نہ تھاکہ عمران خان حکومت نے معیشت کا کیا حال کردیاہے!!موجودہ صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جارہی ہے،اتحادی حکومت ن لیگ کیلئے کمبل بن گئی ہے،اگرچہ ن لیگ فی الفور عام انتخابات کی طرف جانا چاہتی ہے لیکن اتحادی جماعتیں بالخصوص پیپلزپارٹی اور جے یو آئی اُسے ہر صورت مزید ڈیڑھ سال حکومت اپنے ہاتھ رکھنے پر مصرہیں۔ناقدین کاکہنا یہ ہے کہ جہاں جے یو آئی ہاتھ آئی وزارتوںسے مستفید ہوئے بغیر عام انتخابات کی طرف اس خاطر جانا نہیں چاہتی کہ نہ جانے پھر اس طرح کی مرعوب وزارتیں ملے یاناں ملے!پیپلزپارٹی بھی اصلاحات کے نام پر اپنی خواہشوں کے بر آنے کیلئے زور لگارہی ہے،ملبہ تو ظاہر ہے ن لیگ ہی پر گرنا ہے۔ان تما م باتوں سے قطع نظر سوا ل یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی دلدل سے کیسے نکلاجائے ؟ کیاملک بالخصوص پختونخوااور بلوچستان میں قدرتی وسائل کی صورت چھپے ہوئے خزانوں کو کام میں لایا جا سکتا ہے، کیا وہ حکمران طبقات جو عوامی دولت لوٹ چکے ہیں، اُسکاایک حصہ بطورقرض حسنہ ملکی خزانے میں جمع کرانے کیلئے تیارہیں،کیا مہنگائی مافیا کو نکیل ڈالنے کاکوئی نسخہ ہے،یہ اوراس جیسے دیگرانقلابی اقدامات کی بجائے حکومت کی تبدیلی یا انتخابات سے نہ تو پہلے ملکی معیشت سنبھلی تھی اور نہ اب اس کے امکانات ہیں، یادرہے اس دوران معین قریشی یاشوکت عزیز کی طرح پھر کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کا تجربہ ملک وملت کیلئے اُس تجربےسے بھی زیادہ ضرررساں ہوگاجس طرح کا تجربہ مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کرتے وقت کیاگیا تھا۔بشکریہ جنگ
واپس کریں