دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گیانواپی مسجد یا بھگوان شو کا مندر
فہد علی
فہد علی
بابری تو جھانکی ہے کاشی متھیرا باقی ہے۔ یہ نعرہ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا ہے ۔اس نتظیم کا بنیادی مقصد تو معاشرے کے لوگون کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے لیکن بد قسمتی سے اس نے بھارت میں بسنے والے مسلمانون پر ظلم و بربریت کے پہاڑ گرا رکھے ہیں اس تنظیم کو بھارتی سرکار کی جانب سے بھی کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جب چاہے جہان چاہے مسلمانون کے خلاف مورچے نکالے ان کی تزلیل کرے ۔بابری مسجد کو شہید کرنے میں بھی اسی تنظیم کا ہاتھ تھا اور اب ایک نیا معاملہ جو کہ بھارت میں سر گرم عمل ہے وہ ہے گیانواپی مسجد پہلے نظر ڈالٹے ہیں اس مسجد کے ماضی پر یہ مسجد اتر پردیش کے ضلع وارانسی میں واقع ہے ۔گیوانواپی کب سے ہے اسکا تو تاریخ میں میں ذکر نہیں یہی بات اس مسجد کے قدیم ہونے کا واضع نشان ہے  ہاں البتہ اس مسجد کی تعمیر نو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے 1669 میں شروع کروائی یہ مسجد 3 گنبدون اور 2 میناروں پر مشتمل ہے ۔
گیانواپی اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ مسجد مغل فن تعمیر انڈو-اسلامک فن تعمیر کا حصہ بھی ہے ۔اب بھارت بھارتی سرکار اور بھارت میں موجود ہندو انتہا پسند تنظیمون کا کہنا ہے کہ یہ مسجد نہیں بلکہ بھگوان شوا کا مندر ہے ۔اس بات کو مدنظر رکھیے گا کہ جس شہر میں یہ مسجد واقع ہے اس شہر کو مندرون کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔اسی مناسبت سے یہ بات بھارت سرکار کو ہضم نہیں ہو رہی کہ ایسے قدیم شہر میں ایسی قدیم مسجد ابھی تک سہی سلامت کیون ہے ۔بھارتی سرکار کا  بس چلے تو وہ ہندستان میں بسنے والے مسلمانون کو زندہ درگور کر دیں۔اب بھارتی سرکار کا دعوہ یہ ہے کہ اس مسجد کے صحن میں ایک شولنگ نصب ہے جو کہ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ یہ مندر کو توڑ کے مسجد بنائی گئی ہے ۔ہندو شیولنگ کو بھگوان شیو کی علامت اور تخلیق کائنات کے منبع کے طور پر پوجتے ہیں۔ ہندو روایت میں یہ ہر طرح کی تخلیق اور قوت تخلیق کی علامت ہے۔بھارت کی اس مکاری کے خلاف ہندستان کے مسلمان سراپا اح۔حتجاج ہیں ۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے دفتر سے جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’گیان واپی مسجد بنارس، مسجد ہے اور مسجد رہے گی، اس کو مندر قرار دینے کی کوشش، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے مغائر ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سنہ 1937 میں دین محمد بنام اسٹیٹ سیکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کر دی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے اور اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔پریس نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مسجد کی انتظامیہ سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کر دیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضو خانہ کے حصہ کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا، یہ کھلی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔سنہ 1991 کے مذہبی عبادت گاہوں کے قانون کے بعد اس طرح کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا لیکن اب سروے کے بہانے از سر نو دعویٰ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اسدالدین اویسی بھی اس عدالتی فیصلے کے خلاف کھل کر سامنے آئے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ جب تک ہم زندہ ہے دوبارہ بابری مسجد جیسا واقع ہر گز نہ ہونے دیں گے ۔مودی سرکار کو بھی سمجھ جانا چاہئے کہ اب مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنا دفاع کرنا اور حق لینا جانتے ہیں ۔
واپس کریں