دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
13جولائی تجدید عہد کا دن
راجہ خان افسر خان
راجہ خان افسر خان
کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جدو جہد 1832ء میں شروع کر دی تھی۔ تحریک آزادی نے 1931ء میں زور پکڑا جب 13جولائی1931ء کو سرینگر میں ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں بیدردی سے شہید ہونے والے بائیس سالہ نوجوان کی یاد میں ہر سال تجدید عہد کے طور پر ان جذبہ سرفروشوں کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے انہتائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔92سال قبل جموں میں ایک ہندو کے ناپاک ہاتھوں سے قرآّن پاک کی بے حرمتی اور سماجی پابندیوں اور مذہبی پابندی کی وجہ سے اہل کشمیر کو رنجیدہ کر دیا۔ انہی واقعات کی وجہ سے اہل کشمیر کے بچہ بچہ نے سراپا احتجاج کیا۔ 1931ء کو خانقاہ معلیٰ سرینگر میں ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں کشمیر ی رہنماؤ ں نے شرکت کی۔ ایک اجنبی نوجوان نے کھڑے ہو کر جذباتی تقریر کی اور ڈوگرہ کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور اسکی تائید میں کشمیر کے ہر زی شعورعوام نے اسکی تقریر کی تائید کی۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ مقدمے کے دوران عوام کی ایک بڑی تعداد اسکی حمایت میں امڈ آئی۔ یہ ڈوگرہ حکومت کو پسند نہیں تھا اور لوگ اس اجنبی نوجوان کو دیکھنے کے لئے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لئے احاطہ عدالت میں جمع ہو گئے۔ لوگوں نے اس دوران مطالبہ کیا کہ بند کوٹھری میں سماعت کی بجائے کھلی عدالت میں اس کی سماعت کی جائے۔
لوگوں اور ڈوگرہ حکومت کے درمیان اس مطالبہ کے سلسلے میں معاملات کشیدہ ہوگئے اور لوگوں کو ڈوگرہ فورس نے وارننگ دی کہ احاطہ خالی کیا جائے۔لیکن لوگوں نے انکار کردیا۔ آخر کار اس دوران ڈوگرہ فورس نے بے گناہ شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں 22مسلمان شہید اور 50کے قریب زخمی ہو گئے۔ اس خبر کی وجہ سے پورے کشمیرمیں صف ماتم بچھ گیا۔ کشمیریوں کو اس ظلم کی غنڈہ گردی کے خلاف ایک لہر کی شکل میں انتقام کے شعلے بھڑکنے لگے۔ اسی غنڈہ گردی کی خبر نے پورے کشمیر کے اندر جذبہ آزادی اور ڈوگرہ کے خلاف ایک جوش اور ولولہ پید اکیا اور شہید ہونے والوں اور زخمی ہونے والوں کی امداد کرنے والوں کو ڈوگرہ حکومت کے کارندوں نے تنگ کر نا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں کو مارا گیا۔13جولائی کے اس واقعہ کے ساتھ ہی شام کو چوہدری غلام عباس اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پورے کشمیر میں حکومت کے خلاف اور ان کے مظالم کے خلاف بغاوت کی تحریک شروع ہو گئی اور کشمیری قوم نے پورے کشمیر میں احتجاج اور مظاہرے کر نا شروع کر دئیے۔ اس دوران مہاراجہ ہری سنگھ نے انتظامی تبدیلیاں کی۔ اس رد عمل کو روکنے کے لئے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا جو کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر جوہر لال کی قیادت میں قائم ہوا۔ اس کمیشن کی رپور ٹ کو مسترد کر دیا گیا اور رپورٹ کو سر عام جلایا گیا۔لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے پھر ڈوگرہ حکومت نے ایک اور کمیشن تشکیل دیا۔ کشمیریوں کے اندر ان مظالم اور گرفتاریوں اور شہادتوں کی وجہ سے جذبہ آزادی کی ایک لہر پید ا ہوئی۔
13جولائی 1931ء کے ایک واقعہ میں کشمیریوں کے جذبہ آزادی کا آغاز ہوا اور آخر کار کشمیری قوم نے 1947ء میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ڈوگرہ حکومت کے خلاف ہر محاذ پر بغیر ہتھیاروں کے جہاد کیا اور اس جذبہ ایمان کے ساتھ پونچھ، باغ، مظفر آباد او ر میر پور کے اندر مجاہدین نے گروپوں کی صورت میں پاکستان کی مدد کے بغیر خطہ آزاد کشمیر آزاد کر وایا۔ اور کچھ دستے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو چکے لیکن اس وقت کی سیاسی قیادت بھارت نواز تھی۔اور انہوں نے غلط فیصلہ کر کے وادی جموں کا علاقہ بھارت کی جولی میں پھینک دیا۔ اس غلط سیاسی فیصلہ نے آج تک کشمیریوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ پر بھارت نے زبر دستی قبضہ کیا۔اور اس وقت سے لے کر آج تک قبضہ جمایا ہو ا ہے۔ کچھ سیاسی فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کی سزا پوری قوم کو کئی صدیوں تک بھگتنا پڑتی ہے۔ اسوقت شیخ عبد اللہ کو بھارت میں لالچ دے کر حامی بنا لیا۔ اور لوگوں میں یہ خبر پھیلا دی کہ وادی کے اندر پٹھان گھس کر وادی میں ظلم کر رہے ہیں۔ یہ خبر پھیلا کر پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔ اس کو جواز بنا کر ڈوگرہ نے بھارت کو مدد کے لئے پکارا اور بھارت نے 27اکتوبر1947ء کو وادی کشمیر اور جموں میں بھارت کی مدد کے بہانے اپنی فوج اتار دی۔
مہاراجہ کو توعلم تھا کہ میرا قتدار ویسے بھی نہیں رہے گا اور اس وقت کی سیاسی قیادت شیخ عبد اللہ بھی پاکستان بیورو کریسی سے ناراض تھے اور جذباتی فیصلے کر کے قوم کو مزید غلامی میں دھکیل دیا۔ جس کی سزا آج تک پوری کشمیری قوم بھگت رہی ہے۔ اس کے لئے آج تک لاکھوں جانیں قربان کر دی گئیں ہیں۔ اور لاکھوں ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں تا رتار ہوئیں ہیں۔بھارت سیکولر ازم کا پر چار کر نے والی ریاست کشمیر کے اندر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کی دلیری اور شعور کا نتیجہ ہے کہ آج خطہ کشمیر آزاد ہے اور آزاد فضا میں لوگ زندگی بسر کرر ہے ہیں۔ سیاسی قیادت کا فیصلہ بر وقت،درست ہو تو اس کا نتیجہ قوم کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ بھارت بظاہر ایک سیکو لر ازم کا پر چار کر تا ہے۔ vکشمیریوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ بھارت کی غلامی سے ہر حال میں نجات حاصل کریں گے۔کشمیریوں کی جدو جہد کو آج بھارتی پروپیگنڈے کے تحت سرحد پار دہشت گردی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس غیر حقیقت پسندانہ اپروچ سے کشمیریوں کے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہونگے۔ دنیا کو جلد اس بات کو تسلیم کر نا ہو گا کہ کشمیریوں کی جد وجہد جائز ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل کیا جاناعلاقائی اورعالمی امن کے لئے اور خصوصا ً ساؤتھ ایشاء کے لئے بے حد ضرور ی ہے۔
راجہ خان افسر خان۔ ڈائریکٹر ، کشمیر سنٹر راولپنڈی
واپس کریں