دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تحریک آزادی کشمیر اور نظریہ الحاق پاکستان کے داعی
راجہ خان افسر خان
راجہ خان افسر خان
رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس خانؒ مرحوم تحریک آزادی کے بانیوں میں تھے۔آپ 4فروری 1904ء کے بروز جمعہ جموں میں پید ا ہوئے۔آپ کے والد کا نام نواب خا ن تھا۔جموں کے مشن ہائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔1921میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔1925میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔1929میں لاہور لاء کالج میں داخلہ لیا اور 1931ء میں قانون میں ڈگری حاصل کی۔ہائی سکول کے زمانے سے ہی چوہدری غلام عباس خانؒ نے اپنے ارد گرد کے سیاسی اور سماجی حالات پر غور کر نا شروع کیا۔کالج کے زمانے سے ہی اپنے آپ کو ایک بڑے چیلنج کے لئے تیا ر کیا۔پنجاب یونیورسٹی میں بی اے کے لئے داخلہ لینے سے قبل ہی ایک سال 1924ء میں وہ ینگ مینز ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔اس زمانے میں سرینگر کے مقابلے میں جموں میں زیادہ شہری سہولیات میسر تھیں۔کیونکہ اس شہر کو ڈوگرہ شاہی کی سر پرستی حاصل تھی۔تعلیم کے میدان میں جموں سرینگر کے مقابلے میں کافی ایڈوانس تھا۔

13جولائی 1931ء کے واقعات نے چوہدری غلام عباس خانؒ کو ریاست کے دوسرے رہنما شیخ محمد عبد اللہ کے قریب لایا اور دونوں نے کشمیر کی آزادی کیلئے مل کر جد وجہد کرنے کی کوشش کی۔13جولائی کو ڈوگرہ پولیس نے سرینگر سنٹرل جیل کے باہر گولی چلا کر 22افراد کو شہید اور درجنوں کو زخمی کیا۔اس سانحہ کے فوراً بعد چوہدری غلام عباس سرینگر میں ایک ہاؤ س بوٹ سے گرفتار کئے گئے۔1932کو چوہدری غلام عباس کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اسی سال مسلم کانفر نس کا قیام عمل میں لایا گیا اور انہیں سیکر ٹری جنرل منتخب کیا گیا۔جبکہ شیخ محمد عبد اللہ اسکے صدر چنے گئے۔چوہدری عباس اعلیٰ صلاحتیوں کے مالک تھے۔اس کے پیش نظر 1934میں صدر مسلم کانفر نس شیخ محمد عبد اللہ نے چوہدری غلام عباس خانؒ کو ریاست کے مسلمانوں کے حقوق منوانے کے لئے ڈوگرہ حکومت کے ساتھ مزاکرات کرنے کا مکمل اختیار دیا۔اسی زمانے میں متحدہ ہندوستان کے بر طانوی حکمرانوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار اور دیگر سیاسی حالت جاننے کے لئے گلیسنی کمیشن قائم کیا۔جب وہ کمیشن سرینگر آیا۔چوہدری غلام عباس نے اس کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کئے۔مسلم کانفر نس کی کوششوں اور غلام عباس اور شیخ عبد اللہ کی قیادت کی وجہ سے ریاست میں ایک لولی لنگڑی نیشنل اسمبلی قائم ہوئی۔جس کے اندر مسلمانان کشمیر کو بہت کم نمائندگی دی گئی۔1935ء میں چوہدری غلام عباس خانؒ آل جموں و کشمیر مسلم کانفر نس کے صدرمنتخب ہو ئے اس بار انہوں نے ریاست جمو ں وکشمیر کے دور دراز علاقوں کا دورہ کر کے مسلمانان ریاست کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی۔

1937ء تک شیخ محمد عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس خانؒ کی قیادت میں کشمیر کی تحریک ایک متحدہ پلیٹ فارم سے چل رہی تھی۔ہر طرف اتحاد و ہم آہنگی نظر آ رہی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1944میں جب قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لے گئے انہوں نے جامع مسجد میں ایک تقریر کے دوران کشمیری قوم کو ایک جھنڈے کے تلے جمع ہونے کی تلقین کی تھی۔قائد کو کشمیر اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت تھی۔پاکستان کے لئے کشمیر کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔اس دورے کے دوران میر واعظ نے مسلم کانفر نس کی طرف سے سالانہ اجلاس میں قائد اعظم کے لئے سپاسنامہ پیش کیا۔میر واعظ منزل میں قائد کے اعزاز میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔کشمیری عوام حضرت قائد اعظم کے لئے دل میں بہت عقیدت اور احترام رکھتے ہیں۔ دعوت کے اختتام پر قائد اعظم کو کشمیری لباس پیش کیا،جب انہوں نے کشمیری لباس پھرن (ایک خاص لباس) پہن لیا اور فر مایا "کیا میں کشمیری لگتا ہوں "۔یہ سن کر لوگوں نے قائد اعظم زندہ باد فلک شگاف نہرے لگائے۔

قائداعظم کی ہدایت پر کشمیری قوم نے 1936میں زبر دست اتحاد کا مظاہرہ کیا۔شو مئی قسمت سمجھ لیں یا سازش 1938میں کشمیر لیڈر شپ کے نظریات دو دھڑوں میں بٹ گئے۔1938ء کے سالانہ اجلاس کے دوران شیخ محمد عبد اللہ نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھنے کی تجویز دی۔10جون 1939ء کو مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفر نس رکھا گیا۔اگرچہ یہ فیصلہ مسلم کانفر نس کی اکثریت نے کیا۔لیکن جو لوگ اس کے حق میں نہیں تھے۔چوہدری غلام عباس اس گروپ کے اندر بڑی اہمیت رکھتے تھے۔چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفر نس کا نام تبدیل کرنے پر سخت مخالفت کی۔اس فیصلہ کے بعد چوہدری غلام عباس کو شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ سخت اختلافات پیدا ہوئے۔سال 1939ء تاریخ کشمیر کا سیاہ ترین سال ہے۔اسی سال میں کشمیری متحدہ قیادت دو حصوں میں بٹ گئی۔دو نظریات ایک دوسرے کے سامنے آئے۔نظریات کی بنیاد پر قوم دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔کشمیری قوم کا صدیوں پرانا اتحاد ٹوٹ گیا۔لیکن ریاست کی خوش نصیبی یہ ہے کہ دونوں لیڈر شیخ عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس کشمیر میں ایک ذمہ دار انہ حکومت کے حق میں تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں کانگر یس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کی حریف بن چکی تھی۔پاکستان مومنٹ اپنے مقصد کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔چوہدری غلام عباس نے مسلم لیگ اور قائداعظم پر اعتماد کر کے اپنی وابستگی کا کھل کر اظہار کیا۔چوہدری غلام عباس ایک خودار شخصیت کے مالک تھے۔1940ء میں پنڈت جواہرلال نہرو شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر سرینگر تشریف لے آئے۔چوہدری غلام عباس خان ؒنے انکے ساتھ ملاقات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔1939ء سے لے کر 1941ء تک چوہدری غلام عباس خانؒ حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔آخر کار اپریل 1942میں انہوں نے مسلم کانفر نس کا دوبارہ احیاء کیا۔اس کا اعلان انہوں نے جموں میں اپنی رہائش گاہ سے کیا۔اس بار انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔
1931ء میں ابتدائی طور پرعوام کی تحریک بندش خطبہ اورتوہین قرآن کے سانحات کے خلاف تھی۔13جولائی کے شہدا ء نے اسے ایک تحریک میں بدل دیا۔ظلم بڑھتا گیا۔تحریک حریت کشمیر نے ایک ذمہ دارانہ حکومت کا مطالبہ کیا۔شیخ محمد عبد اللہ اور چوہدری غلام عباس خان ؒ کی قیادت میں مسلم کانفر نس اور نیشنل کانفر نس نے عوام کو ڈوگرہ کی غلامی سے نجات دینے کے لئے جد وجہد کی۔لیکن جولائی 1946میں ایک ایسی قرارداد سامنے آئی جس کے ذریعے آزاد کشمیر کا مطالبہ کیا گیا۔جولائی کے مہینے میں میر واعظ سرینگر میں چوہدری غلام عباس خانؒ کی صدارت میں ایک بڑا اجلاس ہو ا۔اس اجلاس کے اندر کشمیر میں آزادی کے لئے "قرارداد آزاد کشمیر "منظور کی گئی۔اس قراردادکے بعد حکومت کے ایوانوں میں آگ لگ گئی۔ڈوگرہ حکمرانوں نے ایک منٹ ضائع کئے بغیر چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا۔اس گرفتاری کے بعد مقبوضہ کشمیر کے اندر نظریہ الحاق پاکستان کھل کر سامنے آیا۔میر واعظ نے ایک تقریر کے دوران حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔

14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آتے ہی کشمیر کے اندر پاکستان نواز رہنماؤں اور قائدین کے علاوہ مسلم کانفر نس کے افراد پر قیامت ٹوٹ گئی۔کشمیر کے اندر پاکستان نواز عوام کو مالی اورجانی نقصان پہنچایا گیا۔ان کے کاروبار کو ختم کیا گیا۔صوبہ جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔لاکھون مسلمان بے گھر ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔جموں کے اندر چوہدری غلام عباس خانؒ کا گھر تباہ کر دیا گیا۔حضرت قائداعظم نے انہیں ریاست جموں وکشمیر کے مہاجرین کا آباد کاری کی ذمہ داری سونپی۔جسے انہوں نے بڑی ذمہ داری سے پورا کیا چوہدری غلام عباس آزاد کشمیر حکومت کے نگران اعلیٰ بھی رہے۔انہی دنوں میں انہوں نے سیالکوٹ سے اپنا دفتر مری شفٹ کر کے کام شروع کیا۔
رئیس الاحرارچوہدری غلام عباس خانؒ انتظامی عہدوں تک محدود نہیں رہے۔انہوں نے ہر لمحہ کشمیر کی آزادی کی کوشش کی۔انہیں کشمیرلبریشن مومنٹ بنانے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔انہوں نے مہاجرین کی آباد کاری کے ساتھ ساتھ عوام کو تحریک آزادی کشمیر کے راستے پر لگا کر الحا ق پاکستان کا نظریہ عوام کے دلوں میں مضبوط کیا۔وہ وقت آخرتک آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔آخر کار 18دسمبر 1967کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کی آخری آرام گاہ لاہور،اسلام آباد اور مظفرآباد راولپنڈی کے چوراہے فیض آباد کے نزدیک ایک سرسبز باغ میں موجود ہے۔اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔

حکومت آزاد کشمیر ہر سال 18دسمبر کو چوہدری غلام عبا س خان ؒکی برسی بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے۔حکومت انکے مقبرے پر ایک جلسے کا اہتما م کر کے انہیں سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔ حکومت آزاد کشمیر نے مظفرآباد میں ایک میڈیکل کمپلیکس چوہدری غلام عبا س خان ؒ کے نام سے منصوب کیا ہے۔یونیورسٹی میں ایک قائد ملت چیئر بھی قائم کی۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم چوہدری غلام عباس خان ؒ کے مشن کو آگے بڑھا کر کشمیر کی آزادی کے لئے عملی اقدامات کریں۔
واپس کریں