دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان انڈیا سے دوستی کرے: مولانا آزاد (1956)
ظفر الاسلام
ظفر الاسلام
مولانا آزاد نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ انڈیا سے دوستی کرے، اور کشمیر پر اپنا حق حاصل کرلے۔ مولانا نے پاکستانی سیاستدانوں کو یہ پیغام پہنچانے کیلئے مشہور پاکستانی صحافی شورش کشمیری کو انڈیا بلایا۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی شورش کشمیری نے اپنی ایک کتاب میں اسے قلمبند کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست محمد آصف نے وہ گفتگو فیس بک پر ڈال دی ہے۔ میرا مختصر تبصرہ حاضر ہے:
1۔ بلاشبہ مولانا آزاد ایک جینئس تھے، ان میں حالات و واقعات کو بہت دور تک اور بہت گہرائی تک دیکھنے کی خدا داد صلاحیت تھی۔ مولانا نے شورش سے 1956 میں گفتگو کی، یعنی اپنے انتقال سے ایک سال پہلے، لیکن انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بنگلہ دیش کے قیام (1971) تک واقعات کی جزئی تفصیلات تک جس طرح بیان کی ہیں، وہ کسی انسان کے بس میں نہیں۔ شورش نے یقینا" یہ تحریر 1971 کے بعد کسی وقت لکھی ہے، اس نے مولانا کی گفتگو میں اپنے afterthoughts کو بھی شامل کردیا ہے۔ تحریر کی اپنی اندرونی گواہی میرے اندازے کی تائید کررہی ہے۔ مولانا نے زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہوگا کہ پاکستانی سیاستدانوں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے سرکاری ملازمین پاکستان کے معاملات میں موثر ہوگئے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ جلد ہی فوجی افسران غالب آجائیں گے۔ تفصیلات شورش کا اپنا اضافہ معلوم ہوتی ہیں۔
2۔ مولانا آزاد نے لیاقت علی خان پر یہ الزام لگایا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو انہوں نے خراب کیا۔ وہ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ہندو ریاستوں حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، مانادور اور منگرول بھی ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ اگر وہ ہندو ریاستوں کو چھوڑ دیتے، تو انڈیا کشمیر چھوڑنے پر تیار تھا۔ یہ حد درجہ نامعقول اور مضحکہ خیز الزام ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب انڈیا 1948 تک مذکورہ ہندو ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے اندر ضم کرچکا تھا، تو پھر اس نے کشمیر کو کیوں نہیں چھوڑا۔ اور پاکستان نے کسی ہندو ریاست پر قبضہ ہی کب کیا تھا کہ وہ اسے چھوڑتا۔ مذکورہ ہندو ریاستیں انڈیا کے اندر ہیں، پاکستان ان پر قبضہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تو اپنے بغل میں واقع مسلم ریاست جموں و کشمیر پر بھی پورا قبضہ نہ کرسکا۔
3۔ انڈیا کو سب سے زیادہ غصہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے ان فوجی معاہدوں پر تھا، جو 1954 کے بعد کئے گئے۔ مولانا آزاد اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ یہ انڈیا کا مسلم ریاست کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور رائےشماری سے ٹال مٹول تھا، جس نے پاکستان کو اپنی فوجی قوت بڑھانے کیلئے امریکہ سے فوجی معاہدوں پر مجبور کیا۔ اگر مولانا کی نیت صاف ہوتی تو وہ اپنی حکومت کو سمجھاتے کہ وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے چھوڑدے، اور پاکستان کو ڈرانے دھمکانے سے باز آجائے، تاکہ پاکستان کیلئے ان فوجی معاہدوں کی ضرورت ختم ہوجائے۔
4۔ اس کے بجائے مولانا پاکستان کو پیغام بھیج رہے تھے کہ وہ فوجی معاہدوں سے الگ ہوکر انڈیا کا غصہ دور کرے، اور انڈیا سے دوستی کرے تاکہ انڈیا کشمیر پر پاکستان کا حق تسلیم کرلے۔ اس دوستی کی صورت کیا ہو، اس کا اس تحریر میں ذکر نہیں۔ نہ جانے مولانا نے شورش کو مطالبے کی نوعیت سے اس وقت آگاہ نہیں کیا، یا شورش نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن شیخ عبداللہ جب انڈیا میں 11 سال طویل جیل کاٹ کر نہرو کے ایماء پر 1965 میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے اپنے مشن پر پاکستان آئے، تو ان کی جیب میں یہ آفر تھی کہ ریاست جموں و کشمیر خودمختار ملک بن جائے، پھر انڈیا، پاکستان اور کشمیر کی ایک کنفیڈریشن بن جائے۔ گویا بھارت کے ذہن میں دوستی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی یہ شکل ہے۔ پاکستان نے اس تجویز کو یہ کہکر مسترد کردیا کہ یہ کشمیر کی آزادی نہیں، بلکہ پاکستان کی غلامی کا پیکج ہے۔
واپس کریں