ظفر الاسلام
17ستمبر 1719ء تخت پر بیٹھا مغل سلطنت کا 14 واں بادشاہ تھا....
دین محمد شاہ کا لقب پسند کیا۔ اپنی الٹی سیدھی حرکات و سکنات سے محمد شاہ رنگیلا مشہور ہوا۔
وہ عیش پسند، غیر متوازن تھا جو چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا رقص، فحاشی اور عریانی کا دلدادہ تھا۔
قانون بنانے توڑنے کے مرض میں مبتلا تھا۔
ایسا پارہ صفت انسان جو اچانک کسی کو اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا جب چاہتا وزیراعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا۔
اچانک حکم دیتا کہ تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں فلاں گھنگھرو باندھے۔
وزراء اور درباریوں میں کسی کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی۔
اگلے روز دربار خواجہ سراؤں کی زینت لگتا رنگیلا آتا اعلان کر دیتا:
" جیلوں میں جتنے قیدی ہیں تمام کو آزاد کردیا جائے اتنی ہی تعداد میں مزید افراد جیل میں ڈال دیئے جائیں"
سپاہیوں کی دوڑ لگ جاتی جو ملتا پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے۔ اس کے 27سالہ دور میں دلی میں کم و بیش ہی کوئی شخص بچا ہو جس نے جیل کی ہوا نہ کھائی۔
شاہی خلعت پیش کرتا اگلے ہی روز وزارتیں اور خلعتیں واپس لے لی جاتیں۔
رنگیلا کے ایک لاڈلے گھوڑے کو وزیر مملکت کا عہدہ دے رکھا تھا جو شاہی خلعت پہنے وزراء کے ہمراہ دربار میں کھڑا رہتا۔
سلطنت مغلیہ کے زوال کا پہیہ شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد شروع ہو چکا تھا جس کا سدباب شاہ رنگیلا کے طویل دور حکومت میں کیا جا سکتا تھا...
مگر بدقسمتی سے بادشاہ کی عیش پسندانہ بے فکری سے نظم و نسق کی ذمہ داری وزراء کے کاندھوں پر تھی جن کی باہمی چشمک نے سلطنت کو موجودہ پاکستان کی طرح سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار کر دیا.......
کوہ نور ھیرا ایرانی چھین لے گئے اور نادر شاہ نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی....
لیکن شہنشاہ کی بھنگ افیم اور طوائف پرستی والی نیند نہ ٹوٹی......
مسجدوں کی بجائے گوردواروں اور مزاروں کا دلدادہ تھا....
کثرتِ شراب نوشی اور افیم کی لت نے سلطنت کو کھوکھلا کر دیا۔
اس کی عمر مختصر ثابت ہوئی وہ 46 برس ہی کو پہنچا تھا کہ اچانک اس پہ غشی کا دورہ پڑا۔
طبیبوں نے ہر نسخہ آزمایا۔
حیات بخش باغ منتقل کر دیا گیا مگر حیات کی گھڑیاں طویل نہ ہو سکیں۔ ساری رات بے ہوش رہنے کے بعد اگلے روز چل بسا........
نکما تھا نشئ تھا لیکن اپنا نام بہرحال بادشاھوں کی فہرست میں لکھوا گیا.....
واپس کریں