دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اختیار کی یہ لڑائی جیتے گا کون؟
عاصمہ شیرازی
عاصمہ شیرازی
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا، نیرو اور کیا کرتا؟ اقتدار ریت کی طرح ہاتھ سے نکل چکا تھا، اختیار کی چھڑی اس کے قبضے میں نہ رہی تھی۔ نیرو نے یہی مناسب سمجھا ہو گا کہ بے اختیاری کی کیفیت سے لطف اندوز ہوا جائے۔گذشتہ کئی کالموں میں دو باتیں بارہا تحریر کر چکی ہوں کہ پاکستان میں موجودہ کشمکش اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اختیار کے لیے ہے۔طاقت کا ایک مرکز اب دو میں تقسیم ہے، عدلیہ ایک مرکز کا حصہ ہے جبکہ مقتدرہ بذات خود طاقت اور چند سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ ہیں۔
ان سب میں سب سے بڑا طاقت کا مرکز وہ ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے دباؤ بڑھا رہا ہے اور اس کا بیانیہ (غلط یا صحیح کی بحث کے بغیر) جیت رہا ہے۔
مقتدرہ کے پاس طاقت ہے تو دوسرے گروہ کے پاس پروپیگنڈا، ایک بندوق کا ہتھیار رکھتا ہے تو دوجا گالی اور کردار کشی کا، ایک تیر آزماتا ہے تو دوسرا عوامی پذیرائی کے ساتھ جگر سامنے کیے ہوئے ہے۔
میڈیا تماشائی بھی ہے اور تماش گیر بھی۔ پیغام رساں قاصد بھی اور محرر بھی۔ سوشل میڈیا کا دباؤ اس قدر ہے کہ فیصلہ ساز جج ہوں، جرنیل یا صحافی ۔۔۔ دباؤ فیصلے کروا رہا ہے اور فیصلہ ساز مجبور۔
اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں جبکہ بعض ایجنڈے اور بعض مقبولیت کی رو میں بہہ رہے ہیں۔ ہر پیشہ بے اعتبار ہو رہا ہے جبکہ ہر معزز رسوا۔ یہ سب جس سلیقے سے بگاڑا گیا ہے اب وقت نہیں کہ سنوارا جائے۔
سُنی اتحاد کونسل کی نشستوں کا معاملہ آئین سے دیکھا گیا یا جذبات سے؟ اس فیصلے کے نتائج اب تو نکلیں گے ہی لیکن یہ سوال اٹھانے کی جرات کون کرے کہ آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کا اختیار سپریم کورٹ بار بار اپنے ہاتھ کیوں لے رہی ہے؟سنی اتحاد کونسل سپریم کورٹ کے دروازے میں داخل ہوئی اور تحریک انصاف کا روپ دھار کر باہر کیسے آئی؟
یہ لبادہ سپریم کورٹ نے آئین کی کس شق کے تحت پہنایا؟ عدالت کب تک اپنے ہی کئے گئے فیصلے بار بار درست کر کے نئے فیصلے کرے گی اور اس کی سزا کب تک ملتی رہے گی یہ سوال تاریخ پر چھوڑنا چاہیے یا اس کا تدارک کرنے کے لیے پارلیمنٹ نام کی چیز اپنا کردار ادا کرے گی؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی حیثیت بطور آئینی ادارہ کیا ہے؟
مقتدرہ اپنے اختیار سے تجاوز کر چکی اور اب یہ اختیار عدلیہ اپنے ہاتھ لے چکی ہے۔ مُنہ زور عدلیہ منہ توڑ مقتدرہ کے قابو میں نہیں رہی اور دہائیوں کا گٹھ جوڑ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں نظام کے بینفشری عمران خان ہی رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ بہر حال اس وقت عوامی رائے ان کے ساتھ ہے۔
مقتدرہ کیوں یہ چاہے گی کہ طاقت کسی اور ادارے کے پاس جائے۔ اس کشمکش میں ادارے کمزور اور ریاست بے بس ہو رہی ہے۔
اس صورت میں سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن انتخابات سے ذرا پہلے افغانستان کے دورے سے ذرا بعد میں ایسے بدلے ہیں کہ ان کی ’اداروں کے ساتھ ہم آہنگی‘مشکوک دکھائی دیتی ہے یا وہ اپنے صوبے میں متبادل قیادت بننا چاہتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی سب سیاسی جماعتیں ایک ہی بیانیے پر کھڑی ہیں جبکہ بلوچستان میں بنی ہوئی فضا پر قومی سیاست کی کوئی نظر ہی نہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک سیاسی گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ بیانیہ صرف اسٹیبلشمنٹ مخالف بِک رہا ہے، یہ جماعتیں نظام کی بینفشری ہونے کے باعث بوجھ اٹھا بھی رہی ہیں اور بوجھ بن بھی رہی ہیں۔
بہرحال نواز شریف اور آصف زرداری کو سامنے آنا ہو گا۔ نواز شریف اپنی سیاست ختم کر چکے ہیں اب اگر وہ میز کے اس طرف بیٹھ کر سیاست دانوں کو اعتماد میں لیں تو سیاسی حل نکل سکتا ہے ورنہ اختیار کی اس لڑائی میں اقتدار کے ساتھ ساتھ نظام بھی جا سکتا ہے۔
واپس کریں