دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جمہوریت کا خواب ادھورا کیوں؟
عاصمہ شیرازی
عاصمہ شیرازی
خالی دیوار پر رینگتے سائے محض خوف جنم دیتے ہیں۔ طویل ہوتے پھیلتے، گہرے سائے وجود نگل رہے ہیں اور تاریک ہیولوں کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔ کبھی ہیولوں کا بھی رنگ روپ ہوا ہے۔۔۔ مگر ستم ظریفی کہ اب یہ بھی وجود رکھتے ہیں۔
ہم کس نظام میں ہیں، جمہوریت؟ آمریت؟ یا دونوں کا محدود مبہم وجود۔ مکالمہ جنم نہیں لے رہا کہ جمہوریت نے جمہوریت کو خطرے میں ڈال رکھا ہے یا جمہوریت کو خطرہ آمریت سے ہے یا اس سے بھی زیادہ مقبول فسطائیت جمہوریت کو خطرات سے دوچار کر چکی ہے۔
جمہوریت مر چکی ہے جبکہ اس کے سوختہ لاشے کو سر بازار تختہ دار کے سپرد کیا جا چکا ہے؟ کیا اب نظام طاقت کا نام ہے؟ طاقت ہر نصاب، ہر آئین اور ہر نظام کا انتساب بن چکا ہے۔
کیا خود مغربی جمہوریت پر نازاں مغرب اس نظام سے وابستہ آخری رسومات کا آغاز کر چکا ہے؟ برطانیہ میں انتہا پسندی کی دوبارہ تعریف محض اس بنیاد پر کی جا رہی ہے کہ فلسطین سے متعلق سڑکوں پر نکلنے والوں پر پابندی عائد کی جا سکے۔ بین الاقوامی میڈیا پہلے ہی غزہ کے معاملے پر یوں کان لپیٹ کر بیٹھا ہے کہ جیسے اندھا، گونگا اور بہرا ہو۔
لبوں پر لگی مہر کس طور چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ آزادیاں محض طاقت سے وابستہ ہیں۔ کمزور نہ تو جمہوری حق رکھتے ہیں اور نہ ہی عالمی چارٹر میں لکھے انسانی حقوق پر ان کا کوئی حق ہے۔
گذشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل کے ستم برداشت کرتے فلسطینی 35 ہزار جنازے اٹھا چکے ہیں، لگ بھگ 70 ہزار زخم لیے امداد کے منتظر ہیں جبکہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں محض تماش بین ہیں، جانوروں کے حقوق کے محافظ اس جدید نسل کشی پر محو تماشا ہیں۔
غزہ کے بسنے والوں کے حقوق جانوروں جتنے ہی تسلیم کر لیے جاتے تو تب بھی حالات مختلف ہوتے۔ یہ سب طاقت کے رنگ ہیں جن کا جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیِ رائے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔
آزادیِ رائے اور فری سپیچ کے حامی مغربی میڈیا پر فلسطین اور غزہ کی حمایت ہی نہیں محض رپورٹنگ پر بھی پابندی عائد ہے۔
سماجی میڈیا کے بیشتر پلیٹ فارمز غزہ میں جاری ستم کی تصویر کشی پر معترض ہیں تو بین الاقومی سرچ انجن فلسطینی حمایتیوں کو اداروں سے فارغ کرنے کے درپے۔ استبداد اور جبر کے پنجے نظام کو کیسے جکڑے ہوئے ہیں کم از کم حالیہ اسرائیل، فلسطین تنازعے نے منافقت کے تمام پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔
طاقت کے تمام رنگ مختلف ہیں، جس کی لاٹھی اس کی صرف بھینس ہی نہیں بلکہ چڑیا گھر کے تمام جانور اسی لاٹھی سے ہانکے جا رہے ہیں۔
طاقت کا دستور نرالا ہے۔ اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے لیے تین ارب ڈالرز سے زیادہ کے ہتھیار مہیا کرنے والا امریکہ پاکستان کو مبینہ طور پر میزائل پروگرام کی تیاری میں ملوث چار کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر چکا ہے۔ ہمارے معاشی فیصلے عالمی تسلط کی ڈور سے بندھے ہیں جبکہ جمہوریت معاشی تقاضوں سے۔ اب ایسے میں اصول کہاں اور نظام کیا۔خطے کے حالات کہاں مختلف ہیں۔ بنگلہ دیش میں بننے والی حکومت کس طرح معرض وجود میں آئی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وطن عزیز کے انتخابات نے بھی دھاندلی کے مقابلے میں ماضی کے انتخابات کا ریکارڈ ٹوٹنے نہیں دیا۔
جمہوریت کے چکنا چور آئینے میں ہمارا چہرہ تو داغدار تھا ہی مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی ’نظام‘ کے ہاتھوں یرغمال نظر آ رہی ہے۔
’اب کی بار چار سو پار‘ کا خواب لیے بی جے پی کے انڈیا میں جمہوریت کے معنی کچھ اور ہو چکے ہیں۔
انڈیا میں جمہوریت ایک پارٹی کی طاقت سے منسوب ہے تو دنیا بھر کی جمہوریت کے رکھوالے امریکہ کے اپنے ہاں جمہوریت مقبول فسطائیت کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ انتخابات کے نام پر رچنے والے ڈرامے تیسری دنیا کی جمہوریت کے لیے طعنہ بن چکے ہیں۔
ہمارے ہاں جمہوریت کا ادھورا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔ خدشات حقیقت بن رہے ہیں کہ جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ نہ کبھی آئی اور نہ ہی آ سکے گی۔ بس جمہوریت، انسانی حقوق وغیرہ جیسی باتوں پر بھرے پیٹ والوں کا حق ہے۔
تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اب یہاں کبھی جمہوری راج نہ ہو گا؟ کہ اب جمہوریت زندہ نہیں رہی؟
واپس کریں