دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مُرشدوں کے مُرشد جنرل باجوہ
عاصمہ شیرازی
عاصمہ شیرازی
پاکستان انتہائی دلچسپ دور سے حال ہی میں گُزرا ہے اور شاید اب بھی گُزر رہا ہے۔ ایسا دلچسپ دور کہ جسے تاریخ میں ’دور مزاحیہ‘ سے یاد رکھا جائے گا۔یہ وہ دور ہے کہ جس ترتیب سے بنا اُسی ترتیب سے بے ترتیب بھی ہو رہا ہے۔ پیاز کی تہیں ہیں کہ کھلتی چلی جا رہی ہیں اور انکشافات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔نہ عمران سیریز کی کہانیاں ختم ہو رہی ہیں اور نہ ہی باجوہ نامہ کے ’اقتباسات‘، انٹرویوز لینے والوں کی دیہاڑیاں الگ اور سُننے اور دیکھنے والوں کی موجیں جُدا۔

بیچ چوراہے ہنڈیا یوں پھوٹ رہی ہے کہ نہ ہانڈی کو غم نہ ہی چوراہے کو پرواہ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’چوراں نوں پے گئے مور تے موراں نوں پے گئے ہور‘۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ہاں ہوا ہے۔اب کپتان اس غم میں مبتلا ہیں کہ اُنھیں اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جنرل باجوہ نے دیا تھا اور اُن کے کہنے پر وہ ایسی حماقت کر بیٹھے ہیں جس کا پچھتاوا جاتے نہیں جا رہا۔

اگر آپ یاد کریں تو اسمبلیاں توڑنے کا اعلان جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے چند روز ہی پہلے کیا گیا تھا، ان ہی تاریخوں میں جنرل باجوہ کی توسیع اور عمران خان کی تاحیات آرمی چیف بننے کی آفر کو اسمبلیاں توڑنے کے اعلان کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو کہانی واضح طور پر سمجھ آ سکتی ہے۔

اب جنرل باجوہ اپنی توسیع کے لیے یہ مشورہ دے رہے تھے یا خان صاحب کو فوری انتخابات کی صورت بھاری اکثریت نظر آ رہی تھی بہرحال اب بتانے کو صرف کہانیاں اور دکھانے کو فقط ڈرامے۔
دسمبر 2022 تک مشوروں کا ورد چل رہا تھا اور مُرشد اپنے مُرشد جنرل باجوہ سے ایسے ایسے وظائف معلوم کر رہے تھے کہ نتیجہ یقینی تھا تاہم حکمران جماعت بندش کا توڑ ایسا لائی کہ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔
اسمبلیاں توڑنے کا نسخہ ایسا اکسیر تھا کہ دو ممکنہ اکثریتی صوبوں میں انتخابات اور ضمانتوں کی موجودگی میں سکہ بند کامیابی سے عمران خان کو کوئی دور نہ کر سکتا تھا مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے مُرشد کچھ زیادہ مؤثر ہیں۔ بہرحال ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

جتنی مرضی ساسوں کی آڈیو لیک کر لیں محبتوں کی اس کہانی کے امین ابھی باقی ہیں۔ محبت کی اس لازوال داستان میں کئی موڑ آئے۔ ابتدائے عشق، ابتلائے عشق اور پھر انتہائے عشق مگر اس سلسلہ وار کہانی میں اب ’ہائے عشق‘ کے مراحل ہیں اور محبوب پرانے دنوں کی یاد میں ٹسوے بہا رہے ہیں اور شکوے بھی کر رہے ہیں۔مُرشد باجوہ نے سیاست کے میدان میں وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ پاکستان اُن کارناموں کے سحر سے نکل نہ پائے گا اور عمران خان نے سویلین جنرل کے روپ میں لاٹھی کا استعمال ایسا کیا کہ جس کی مثال ملنا مشکل۔

سیاست کے ابواب میں جنرل باجوہ کا نام کِن حروف سے لکھا جائے کہ اُنھوں نے شیر کو سب گُر سکھائے نہیں سکھایا تو درخت چڑھنا نہیں سکھایا۔ اب شیر جانے اور درخت جانے (یہاں شیر سے مراد عمران خان ہیں)۔عمران خان اب ایسا کیا کریں کہ دل گرفتگی سے نکل کر ’عملی سیاست‘ کا آغاز کریں، یوں تو اُنھیں جنرل باجوہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے جن کی بدولت اُنھیں اپنا بیانیہ بنانے کا موقع ملا اور مقبولیت بھی ملی، یہ الگ بات ہے کہ اُس بیانیے کی کچھ باتیں ’سکرپٹ‘ سے الگ ہو گئیں اور لینے کے دینے پڑ گئے۔

یوں بھی محبت کی ہر کہانی کامیاب نہیں ہوتی اور انجام اکثر عدالتوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے مگر یہاں تو عدالت کی اپنی محبت کا امتحان ہے۔۔۔ نہ جانے اس موڑ پر محبت کس انجام سے دوچار ہو؟
واپس کریں