دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سانحہ بہاولنگر اور قانون کی حکمرانی کا تصور
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
عیدالفطر کا دن اللہ کریم کی طرف سے عطا کردہ انعام اور یقینی طور پر مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہے۔ عید کےروز جہاں دوست احباب ، رشتہ داربغل گیر ہوکر اور اپنے سے دور افراد کو سوشل میڈیا کے ذریعہ مبارکباد کے پیغامات ارسال کررہے تھے، وہیں پر سوشل میڈیا پر بہاولنگر تھانہ میں فوج اور پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے درمیان ہونے والی لڑائی کی انتہائی افسوسناک خبر نے عید کا مزہ خراب کردیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کے بعد رنگ برنگے تبصرے منظر عام پر آئے۔ فیکٹ چیک کے نام پر کسی نے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو موردالزام ٹھہرایا تو کسی نے فوج کے جوانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں پاک فوج کے جوانوں کی طرف سے پنجاب پولیس کے اہلکاروں پر تشدد نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ کیونکہ پولیس اہلکاروں کے غلط افعال کی تصحیح کا یہ طریقہ کار کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس پہلے بھی سوشل میڈیا پر کئی ایسے واقعات پر منظر عام پر آچکے ہیں۔ چاہے وہ موٹروے پولیس کے افسر کی فوج کے جوانوں کے ہاتھوں پٹائی کا واقعہ ہویا پھر کرنل کی بیوی کی پولیس اہلکار سے منہ ماری۔ گذشتہ چند سالوں میں پاک فوج سے منصوب افسروں، جوانوں یا انکے اہل خانہ کے انفرادی افعال اور کارسرکار میں مداخلت کے واقعات کی بدولت پاک فوج کی بحیثیت ادارہ بہت بدنامی ہوچکی ہے۔ افسوسناک اور خطرناک حد تک سوشل میڈیا پر پاکستان کی محافظ افواج پر تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے گذشتہ سال ماہ مئی میں پاکستان کے دفاع کے نشانات یعنی جنرل ہیڈکوارٹر ، خفیہ ایجنسی کے ریجنل دفاتر ، کورکمانڈر ہاوس، شہدا کی یادگاروں پر ناقابل قبول اور قابل مذمت حملے کئے جاچکے ہیں۔ جسکی پاداش میں کئی افراد سزا پاچکے ہیں اور کئی سزا پانے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
ریاست پاکستان نے اپنے قیام کے 76سالوں میں آدھے سال غیر آئینی غیر منتخب حکمرانوں کی سرپرستی اور انکے غاصبانہ فیصلوں میں گزار دیئے۔ پاکستان اپنا مشرقی بازو بنگلہ دیش کی صورت میں گنوا چکا ہے۔ جہاں ایک طرف پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے، سیاسی جماعتوں کی ریاستی اداروں پر عدم اعتماد جیسی صورتحال حد تو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے شکایتی خط بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ آئین و قانون کے ماہرین کے نزدیک پاکستان کی موجودہ زبوں حالی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اداروں کا اپنے آئینی و قانونی دائرے سے نکل کر دوسرے اداروں کے آئینی و قانونی اختیارات میں مداخلت کرنا ہے۔ چاہے وہ مداخلت پولیس کی جانب سے ہو، عدالتوں کی جانب سے ہو یا پھر دفاعی اداروں کی جانب سے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ محکمہ پولیس کا عمومی طور پر رویہ ایسا ہے کہ عوام تھانہ کا نام سُن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کر دیتی ہے۔ پولیس کی جانب سے ہونے والی زیادتیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لیکن اسکا ہرگز ایسا مطلب نہیں کہ کوئی ادارہ کوئی تنظیم کوئی فرد غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے تھانے پر دھاوا بول دے۔ قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ قانونی طریقہ کار اپنایا جائے۔ تھانہ پولیس کی زیادتی کی صورت میں انکے افسران بالا کو شکایت یا پھر عدالتی فورم سے رجوع کیا جانا چاہیے۔
آئین پاکستان شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 10-Aکے مطابق پاکستان کا ہر شہری کسی مجرمانہ الزام میں منصفانہ عدالتی سماعت اور مناسب کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ یعنی آئینی طور پر سزا سنانے کا اختیار صرف عدالت کے پاس محفوظ ہے۔ آرٹیکل 14(1)پاکستان کے ہر شہری کی عزت نفس کی حُرمت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 25(1)کےمطابق پاکستان کے تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے یکساں تحفظ کے حقدار ہیں۔پاکستان کا ہر ادارہ اور محکمہ اپنے اپنے دائرہ اختیار کے تابع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی ایک ادارے کو دوسرے ادارے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ بہرحال سانحہ بہاولنگر کے حوالے سے پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر بیان جاری کیا جس میں کہا کہ بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقع کو سوشل میڈیا پر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ غلط تاثر پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہوئی، سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ باتیں وائرل ہونے کے بعد دونوں اداروں کی طرف سے فوری جوائنٹ انویسٹی گیشن کی گئی جس میں دونوں اداروں کے افسران نے تمام حقائق کا جائزہ لیا اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا۔ عوام سے درخواست ہے وہ سوشل میڈیا کے جعلی پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں۔ پنجاب پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کیساتھ سوشل میڈیا پر ہی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس کے افسران اور جوانوں کی جانب سے مشترکہ طور پر نعرہ تکبیر، پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد اور پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے مارے گئے۔ یقینی طور پر بہاولنگر واقعہ کا ڈراپ سین انتہائی خوش کن ہے۔
یقینی طور پر افواج پاکستان دفاع وطن اور صوبائی پولیس امن وامان اور قانون کی حکمرانی کی ضامن ہیں اور پاکستان کا ہر شہری پاک افواج سے انتہادرجے کی محبت کرتا ہے۔ یاد رہے فوج کے کسی ایک فرد کے انفرادی فعل کی ذمہ داری پورے ادارے پر لاگو نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس افسوسناک واقعہ پر پاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی پنجاب پولیس کی طرز پر بیان جاری کیا جائے جس سے یقینی طور پر پاک فوج پر ہونے والی تنقید کا خاتمہ ہوگا۔ اور اگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیوز فیک ہیں تو ایسی ویڈیوز بنانے والوں اور انکو پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے۔ یاد رہے قانون کی حکمرانی کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب پاکستان کے ہر ادارے کا فرد آئین و قانون میں متعین کردہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ریاست پاکستان کی خدمات سرانجام دے۔
پاکستان زندہ باد اور پاکستان کا ہر ادارہ زندہ باد
واپس کریں