دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی ٹی آئی اراکین کی واپسی کے امکانات ؟
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کے فیصلے پر پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں آنے لگیں۔ پارٹی رہنماء بیرسٹر علی ظفر بھی سنی اتحاد کونسل کے فیصلے سے خوش نہیں اور انہوں نےاس اتحاد کو غلط فیصلہ قرار دیا۔ انہوں نے رکن قومی اسمبلی شیر افضل خان مروت کے اس بیان کی حمایت بھی کی کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد بڑی غلطی تھی جسکی بھاری قیمت چکا نی پڑ رہی ہے۔ دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دوست اپنے معاملات گھر میں ہی حل کریں تو بہتر ہے۔ اپنے بیان میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کا فیصلہ عمران خان نے کیا تھا، میری طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔
انہوں مزید کہا کہ انتخابی نشان سے لے کر مخصوص نشستوں تک میرے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے۔ اگر میں نے بھی ٹاک شوز میں بیٹھ کر کچھ بول دیا تو کئی لوگ شکل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے متفقہ فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے درمیان ہونے والی گرما گرم بیان بازی کے بعد سابق اسپکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو واپس پی ٹی آئی میں ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن سے ہمیں بلے کا نشان واپس مل جاتا ہے تو دونوں جماعتوں کو آپس میں ضم کردیں گے اور ایوان میں صرف تحریک انصاف ہی رہے گی۔ یاد رہے کہ 19 فروری کو پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ نومنتخب آزاد ارکان نےآئین کے آرٹیکل 51 اور 106کے تحت اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کردیا تھا، جس سے ان اراکین کی آزاد حیثیت ختم قرار پائی۔ بعد ازاں 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھی اور 5 مارچ کو نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشست کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنی اتحاد کونسل کے ممبران اسمبلی کی پی ٹی آئی میں واپسی ممکن ہوگی ؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ آئین و قانون اس سلسلہ میں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ پہلی بات کہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد اراکین اسمبلی اس وقت آئینی و قانونی طور پر سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن چکے ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 63-A کے مطابق اگر اسمبلی میں کسی پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوتا ہے تو وہ اس انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی ممبر اسمبلی اپنی پارلیمانی جماعت کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے برعکس اسمبلی ووٹنگ میں حصہ لیتا ہے جیسا کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلی کا انتخاب ہو یا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ یا بجٹ بل یا آئین (ترمیمی) بل۔ درج بالا انحراف کی صورت میں پارٹی کے سربراہ کی طرف سے اسے تحریری طور پر سیاسی جماعت سے منحرف ہونے کا اعلان کیا جا سکتا ہے، اور پارٹی سربراہ اس اعلامیے کی ایک کاپی پریزائیڈنگ آفیسر جیسا کہ اسمبلی اسپیکر یا سینٹ چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکتا ہے اور اسی طرح اس کی ایک کاپی متعلقہ ممبر کو بھیجے گا۔ ضابطے کی مزید کاروائی کے بعد ممبر اسمبلی کی سیٹ کو خالی تصور کی جائے گا۔ یعنی موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ جو سنی اتحاد کونسل کے باقاعدہ ممبر بن چکے ہیں، انکی قسمت کا فیصلہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کے ہاتھوں میں ہے۔ یعنی اگر بالفرض مستقبل قریب میں حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیساتھ اتحاد یا ان جماعتوں کے حق میں ووٹنگ کا حکم دیں تو سنی اتحاد کونسل کے ممبران کو یہ حکم ماننا پڑے گا۔ بصورت دیگر آرٹیکل 63Aکی کاروائی کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ، 2017 کی بات کی جائے تو اسکی دفعہ 203(3)کے مطابق ایک شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا ممبر نہیں ہو سکتا۔
یاد رہے آئین و قانون میں درج انہی پابندیوں کی بناء پر بیرسٹر گوہر اور عمرایوب سمیت کئی اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی اور پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی بدولت پارٹی عہدوں پر منتخب ہوئے۔ بطور قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یقینی طور پر پی ٹی آئی بحیثیت جماعت اور بالخصوص اسکے حمایت یافتہ آزا د ا راکین اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرکے بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ آئینی طور پر انکے لئے سنی اتحاد کونسل کو چھوڑنا نا ممکنات میں سے ہوگا۔ کوئی صاحب علم ان اراکین اسمبلی کی دوبارہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی بابت کوئی آئینی و قانونی جواز پیش کرنا چاہے تو قارئین سمیت راقم کی معلومات میں یقنی طو رپر اضافہ ہوگا۔
واپس کریں