دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بابا رحمتا گینگ کے ڈالے ہوئے گند کی صفائی
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
رواں ماہ شائع ہونے والی تحریر "جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آئینی تاریخ کی درستگی" میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے عدالتی منصب پر بیٹھا یہ شخص ہر گزرے دن کے ساتھ نئی آئینی تاریخ مرتب کر رہا ہے۔ فیض آباد دھرنا نظر ثانی ، مشرف پھانسی ،ذوالفقار علی بھٹو پھانسی مقدمات کے فیصلوں کی بدولت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جابر حکمرانوں کے زیر سایہ بننے والی آئینی تاریخ کو درست کرنے کی جانب رواں دواں ہیں۔
ہر غیر آئینی و غیر قانونی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی اک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں اور پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ پر ماضی میں لگنے والے بدنما داغوں کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ یقینی طور پر بابا رحمتا فیم سے مشہور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور اسکے ہم خیال ساتھی ججز کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنا اتنا سہل کام نہ تھا مگر آئین و قانون کی سربلندی پر یقین رکھنے والا جج جو اپنے شعبہ سے مخلص ہو اسکے سامنے کھڑی ہونے والی ہر رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی کیس فیصلہ کی بدولت آج بابا رحمتا گینگ اور اسکے ہینڈلرز پاکستانی عوام کی لعن طعن کے حقدار قرار پارہے ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی سپریم کورٹ فیصلہ کے نمایاں نکات ۔ نمبر 1: سپریم جوڈیشل کونسل نے الزمات کی انکوائری کرنے کی بجائے فرض کیا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزمات غلط ہیں، مفروضے کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو جوڈیشل مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیا۔ نمبر2: سپریم جوڈیشل کونسل پر لازم تھا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کو الزمات ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی۔ جبکہ دوسری جانب جسٹس اخلاق، جسٹس شوکت علی، مظاہر نقوی کے مقدمات میں فیصلے شہادتوں کی بنیاد پر ہوئے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد برطرفی کے فیصلے دیے۔ نمبر3: سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا، جسٹس شوکت صدیقی کو قانون کے مطابق موقع فراہم نہ کر کے ان کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ نمبر4: آئینی اور قانونی تقاضے پورا نہ کرنے کی وجہ سے آرٹیکل 211 کا اس کیس پر اطلاق نہیں ہوتا، لہذا آرٹیکل 184/3 کے تحت برطرفی کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواستیں قابلِ سماعت ہیں۔ نمبر5: فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ حال ہی میں مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس میں بھی 14 شہادتیں ریکارڈ کی گئیں، مظاہر نقوی کیس میں گواہوں نے متعدد دستاویزی شہادتیں پیش کیں، گواہوں پر جرح کا موقع فراہم کیا گیا۔ نمبر6: سپریم جوڈیشل کونسل نے نہیں بتایا کہ جسٹس صدیقی عدالتی ضابطہ اخلاق کی کس شق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ نمبر 7: فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں خطاب میں جنرل فیض حمید اور انکے ساتھیوں کے خلاف الزامات لگائے تو حکومت پاکستان اور آرمی چیف کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ موصوف جج کے الزامات کی انکوائری کی جائے، مگر سپریم جوڈیشل کونسل نے درخواست دہندگان کی جانب سے انکوائری کرنے والی بات کو نظر انداز کرکے نہ تو موصوف جج کو الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا اور نہ ہی جنرل فیض حمید و ساتھیوں سے الزامات کی بابت کسی قسم کی انکوائری منعقد کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی و چار دیگر معزز ججز کے فیصلہ کی بدولت جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کالعدم قرار پاچکی ہے۔ بظاہر شوکت صدیقی اپنے عہدہ پر بحال ہوچکے ہیں مگر سال 2018 کی پٹیشن کو کئی سالوں تک سپریم کورٹ کی بندالماریوں میں رکھنے کی بدولت جسٹس شوکت صدیقی ہائیکورٹ جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 62سال سے اوپر ہوچکے ہیں لہذا موصوف اپنے عہدہ پر براجمان تو نہ ہوسکیں گے لیکن انکے اوپر لگا ہوا بدنما داغ ضرور صاف ہوجائے گا۔ مگر افسوس صرف اس بات پر ہو رہا ہے کہ بابا رحمتا گینگ اور اسکے ہینڈلرز کے پھیلائے ہوئے گند کی بدولت ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیونکہ اسی بابا رحمتا گینگ نے اک منتخب وزیراعظم کو مسند اقتدار سے ہٹانے کے لئے آئین وقانون سے ہٹ کر بلیک لاء ڈکشنری کا سہارا لیا۔ منتخب وزیراعظم کو مسند اقتدار سے ہٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا تو غیر آئینی و غیر قانونی طور پر ٹرائل کورٹ پر اپنے ساتھی جج کو مانیٹرنگ جج مقرر کر دیا ، شائد دنیا میں ایسی مثال پہلی مرتبہ قائم ہوئی ہوگی ۔اسی طرح جب قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کے فیصلہ میں اسی گینگ کے ہینڈلرز کو قانون کی گرفت میں لانے کی بات کی تو یہ گینگ قاضی فائز عیسی کے خلاف ہوگیا اور دو سال سے زائد عرصہ انکو زیر عتاب لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے لکھے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کیس فیصلہ نے بابا رحمتا گینگ کی زیر سرپرستی سپریم جوڈیشل کونسل کے اُس وقت کے فیصلہ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی ہیں۔ 23صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ پاکستان کے ہر شہری اور خصوصا قانون کے ہر طالب علم کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
واپس کریں