دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اڈیالہ جیل، سوشل میڈیا کا بیانیہ اور تعبیرِ غالب
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
یوسفی صاحب نے کہا تھاکہ غالب وہ شاعرہے جو سمجھ نہ آئے تو دونا مزا دیتا ہے۔یہ بات تو ٹھیک تھی مگر اب غالب کے شارحین اور عشاق نے مرزا کے ہر شعر کی ایسی ایسی تشریح کرکے دکھا دی ہے کہ بندہ سوچتا ہے ’گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم۔‘میں نے اپنے ایک پرانے کالم میں ...اوہ معافی چاہتا ہوں ، مجھے کالم کی جگہ اظہاریے کا لفظ استعمال کرنا چاہیے کہ استاذی وجاہت مسعود اظہاریہ ہی لکھتے ہیں اور کسی آسان لفظ کے استعمال کو مکروہ ِتحریمی سمجھتے ہیں۔ تو اپنے کسی اظہاریے میں کمترین نے لکھا تھا کہ کبھی غالب کے اُن اشعارکے بارے میں بات کروں گا جو بظاہر آسان ہیں مگر اُن کے کئی مطلب نکلتے ہیں۔آج نیر مسعود کی ’تعبیر غالب‘ پر نظر پڑی تو اپنا وعدہ یاد آیا،اِس کتاب میں نیر مسعود نے غالب کے چند اشعار کو منتخب کرکےاُ ن پر سیر حاصل بحث کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، میں نے اُس میں سے آج دوشعر چُنے ہیں ۔
’’مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے...خانہ مجنون ِ صحرا گرد بے دروازہ تھا۔‘‘شارحین نےاِس شعر کامطلب یوں بیان کیاہے کہ صحرا میں پھرنے والے مجنوں کا گھر تو بے دروازہ ہے ،پھر لیلیٰ کے صحرا میں خاک چھاننے میں کیا امر مانع ہے ، وہ کیوں اپنے مجنوں کے پاس نہیں جاتی۔اپنی تشریح بیان کرنے سے پہلے نیر صاحب نے دیگر شارحین کی رائے نقل کی اور اعتراض اٹھایا کہ ’خانہ ‘ اور ’صحرا‘ ایک دوسرے کی ضد ہیں ، مجنوں کا گھر الگ ہے اور صحرا الگ، شعر میں ’خانہ مجنوں‘ کو بے دروازہ کہا گیا ہے ،صحرا کو نہیں ، اور پھر بے دروازہ کھلی ہوئی جگہ کو نہیں بلکہ ایسی بند جگہ کو کہتےہیں جس میں داخل ہونے اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو۔اِس کے بعد نیر صاحب لکھتے ہیں کہ خانہ مجنوں خود مجنوں کیلئے بے درواز ہ تھا کیونکہ پاگل کو گھر کے اندر رکھا جاتا ہےاور اسی وجہ سے لیلیٰ مجنوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ مجنوں کے گھر میں داخل ہونے کے لیے کوئی دروازہ ہی نہیں تھا۔یہ ذہن میں رکھ کر شعر دوبارہ پڑھیں تو کئی مطلب نکلتے ہیں ۔پہلا، بے شک مجنوں کا گھر بے درواز ہ تھا مگر لیلیٰ کو کیا پرابلم تھی، وہ کیوں بے قرار ہوکر مجنوں کے گھر کے باہرنہ پہنچ گئی ؟ دوسرا،بے شک مجنوں کا گھر لاک تھا، وہاں نہیں پہنچا جا سکتاتھا، مگر صحرا تو کھلا ہے ، لیلیٰ وہیں نکل کھڑی ہوتی ، کم ازکم اُس کی وحشت تو عیاں ہوتی ! لیکن اِس شعر کااصل لطف اُس صورت میں ہے اگر پہلے مصرع کو استفہامِ انکاری سمجھ کر پڑھا جائے ، یعنی لیلیٰ کو بھلا کون روک سکتا ہے، اگر مجنوں اپنے خانہ بے دروازہ کو توڑ کرصحرا میں پہنچ سکتا ہے تو لیلیٰ بھی اپنے عشق کی آگ میں جل کر وہاں پہنچ جائے گی۔اِس شعر کی ایک اور تشریح جو ظاہر ہے کہ نیر مسعود کے ذہن میں نہیں آ سکتی تھی ،یہ ہوسکتی ہے کہ مجنوں کا گھر چونکہ ہر طرف سے بند ہے اِس لیے اسے اڈیالہ جیل سمجھا جائے اور پھر عشاق سے سوال ہو کہ مجنوں تو جیل میں بند ہے ، تم کیوں گھروں میں بیٹھے ہو،یہ کیسا عشق ہے جو تمہیں وحشت خرامی پر مجبور نہیں کررہا!
ایک اور شعر جس کا نیر مسعود صاحب نے پوسٹ مارٹم کیا ،وہ بھی غالب کے بہترین اشعار میں سے ہے ۔’قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو...مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو۔‘اِس شعر کو اگر سیدھا نثر میں لکھا جائے تو یوں ہوگا کہ میں قفس میں ہوں،میرے نالہ و شیون کو گلشن کے دیگر لوگ اچھا نہیں سمجھتے تھے ، اب انہیں مجھ سے نجات مل گئی ہے کیونکہ اب میں گلشن میں نہیں ہوں، اِس کے باوجود نواسنجانِ گلشن کو برا لگتا ہوں، آخر انہیں کس بات کی جیلسی ہے؟تمام شارحین نے اِس شعر کا لگ بھگ یہی مطلب بیان کیا ہےلیکن یہ تشریح اُس سوال کا جواب نہیں دیتی جو شاعر نے پوچھاہے کہ نواسنجانِ گلشن آخر مجھ سے کیوں نالاں ہیں جبکہ میں تو اب اِ ن کی سمع خراشی کا باعث بھی نہیں بن سکتا۔نیر صاحب کی رائے میں شیون اور نواسنجی کرنے میں فرق ہے ، شاعر شیون کرتا تھا ، اُس کی آواز سب سے مختلف اور پُر تاثیر تھی،وہ دل سے نکلتی ہوئی منفرد آواز تھی ، جبکہ نواسنجی فطری شیون کے بر خلاف کوشش کرکے بنائی ہوئی دھن کا گانا ہے اور یوں شیون کی تاثیرنواسنجی سے زیادہ ہے ۔اب شعر کا مطلب یوں ہوا کہ نواسنجانِ گلشن کو احساس تھاکہ میرا شیون اُن کے بیانئےسے بہتر ہے لہٰذا اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لیے وہ میرے شیون پر تنقید کرتے تھے ،اُن کامقصد تھا کہ میرا منہ بند ہوجائے اور لوگ میری بجائےاُن کے بیانئے پر توجہ دیں، میرے مخالفین کی سنی گئی ، مجھے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا مگر اِس کے باوجود لوگ میرے ہی شیون کو یاد کرتے ہیں،پہلے تو میرا شیون گلشن کی حد تک تھا مگر جب سے قید میں ڈالا گیا ہوں تو گلشن سے باہر بھی میری آواز پہنچ گئی ہے ، گویا ہر صورت میں نواسنجانِ گلشن کی آزردگی کا باعث بن رہا ہوں ، اِس لیے اب انہیں قید میں بھی میرا وجود کھَل رہا ہے اور وہ مجھے برا جان رہے ہیں ۔یہ ہے وہ تشریح جس میں سوال کا جواب ملتا ہے ۔ویسے ایک اور تشریح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعر کا نالہ و شیون حد سے بڑھ چکا تھا جس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پھیل رہاتھا ، لہٰذا اسے قید کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ، لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا، اُس کا بیانیہ سوشل میڈیا پر اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اُس کے مخالفین کویہ بات گوارا نہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح اِس کا تدارک کیاجائے، اسی لیے نواسنجانِ گلشن نے ایکس (ٹویٹر) پر پابندی لگوا دی ہے۔
تعبیرِ غالب میں اور بھی بہت سے شعر ہیں جن کے نئے پہلوؤں کی طرف نیر مسعود نے توجہ دلائی ہے، تاہم کہیں کہیں نیر صاحب مطلب کی تلاش میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں جس سے شعر کا لطف ختم ہوگیا ہے۔لیکن اگر آپ بھی میری طرح غالب کے عاشق ہیں اور اُس کے شعروں سے دونا مزا لینا چاہتے ہیں تو نظم طباطبائی کی شرح دیوانِ غالب ، شمس الرحمٰن فاروقی کی تفہیمِ غالب اور نیر مسعود کی تعبیرِ غالب سرہانے رکھ لیں اور روزانہ رات کو گرم دودھ کے ساتھ ایک شعر پڑھ لیا کریں، خدا نےچاہا تو چاند سا بیٹا/ بیٹی ہوگی، شرط یہ ہے کہ صرف شعر ہی نہیں پڑھناخود بھی کوئی ہِل جُل کرنی ہے۔
واپس کریں