دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد پنچھیوں کی خرید و فروخت
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے جانب سے جاری کردہ انٹرا پارٹی الیکشن فیصلہ جات کی بدولت پی ٹی آئی کے نامزد اُمیدواران کا انتخابی نشان کے بغیر بطور آزاد امیدوار انتخابی دنگل میں جانا ایسے ہی تھا جیسے کسی سپاہی کو بغیر جنگی سازو سامان جنگ میں دھکیل دیا جائے۔ تاہم عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے بھرپور حصہ لیا جسکی بدولت پاکستانی سیاسی تاریخ میں یقینی طور پر یہ پہلا موقع ہوگا کہ قومی اسمبلی، پنجاب، خیبر پختونخواہ اسمبلیوں میں کامیاب آزاد اُمیدواروں کی تعداد دیگر سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدواروں سے زیادہ ہوئی۔ انتخابی نتائج کے فورا بعد دوسرا مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں صدر، وزیراعظم، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ، اسپیکر و ڈپیٹی اسپیکر قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی جیسے اعلی ترین عہدیدران کا انتخاب پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں سادہ اکثریت کی بناء کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ 336 نشستوں کی قومی اسمبلی میں اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ایوان میں کم از کم 169ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے۔ حکومت سازی کے لئے آزاد اُمیدواران کی اہمیت کا اندازہ صرف سیاسی جماعتوں کے قائدین ہی لگا سکتے ہیں جنکے لئے مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے انہی آزاد ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی اشد ضرورت ہوگی۔ کیونکہ ان آزاد اُمیدواران کا کسی جماعت میں ضم ہو جانا نہ صرف جماعت کی عددی قوت کو بڑھائے گا بلکہ اسمبلیوں میں موجود خواتین اور غیر مسلم کی مخصوص نشستوں کے حصول میں بھی بہت کارآمد ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواران کو پارٹی کے انتخابی نشان بلے سے محروم ہونا پڑا جسکی بدولت انکی حیثیت بطور آزاد اُمیدوار سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اپنی گذشتہ تحریر "مخصوص نشستوں کا حصول" میں مفصل انداز میں عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی مراحل میں جہاں دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہیں پر انکے حمایت یافتہ اُمیدواران کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے باوجود پارٹی کو مخصوص نشستوں سے محروم بھی ہونا پڑے گا۔ پاکستانی پارلیمانی سیاسی نظام میں آزاد ممبران اسمبلی کی ہمیشہ ہی سے اچھی قیمت لگتی رہی ہے۔ چاہے وہ 90 کی دہائی میں چھانگا مانگا کی سیاست ہو یا پھر سال 2018 میں جہانگیر ترین کے ذاتی جہاز کی کرامات۔ ہماری پارلیمانی سیاست میں بدقسمتی سے نظریات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جسکی جگہ مفادات لے لیتے ہیں۔آزاد ممبران اسمبلی کو تو چھوڑیں یہاں تو چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے موقع پر چشم فلک نے دیکھا کہ سینٹ میں کیسے اقلیت نے اکثریت کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت کو کس طرزگھر کی راہ دکھلادی گئی۔ یقینی طور پر مہنگائی کے اس دور میں لوٹا منڈی میں آزاد اُمیدوران کی ڈیمانڈیں ضرور آسمان سے باتیں کر رہی ہونگی کسی کو وزارت چاہیے ہوگی تو کسی کو نقد رقم۔ بظاہر سیدھی سی بات ہے کہ انتخابات میں کروڑوں روپے لگا کر بطور آزاد ممبر اسمبلی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والا کوئی اللہ کا ولی ہی ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اولین ترجیحات میں آزاد اراکین اسمبلی کو اپنی پارٹی میں ضم کرنے اور نمبر گیم میں عددی برتری حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے حصول کے ساتھ ساتھ تمام اعلی ترین عہدوں پر براجمان ہونا ہے۔ یہ جماعتیں ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ آزاد اراکین اسمبلی کو پارٹی میں ضم کرنے کی کوشش کریں گی جسکی تازہ ترین مثالیں ہر روز ٹی وی سکرینوں پر آزاد ممبران کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی حمایت کے اعلانات کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ لاہور سے پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار وسیم قادر کا مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنا سب سے زیادہ حیران کن خبر تھی۔ کچھ حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد ممبران کا دوسری پارٹیوں میں ضم ہونے پر آئین کے آرٹیکل 63-Aکا اطلاق کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس آرٹیکل کا آزاد ممبر اسمبلی کی بجائے اطلاق صرف سیاسی جماعت سے وابستہ رکن اسمبلی پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے ان آزاد ممبران کے خلاف تھانوں میں مقدمات کی درخواستیں جمع کروانا صرف میڈیا کوریج کا حصول اور وقت کا ضیاع ہے کیونکہ آئینی طور پر کسی بھی آزاد اُمیدوار کی جیت کے نوٹیفیکشن کے تین دن کے اندر اندر کسی بھی سیاسی جماعت میں ضم ہوجانا نہ تو غیر آئینی اقدام ہے اور نہ غیر قانونی مگر افسوس صرف اس بات پر ہوگا اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ممبران اسمبلی کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائیں۔ ماضی میں آزاد اُمید واراپنی ذاتی کاوش اور محنت سے ہمیشہ سے اسمبلیوں میں پہنچتے نظر آئے مگر اس مرتبہ آزاد اُمیدواروں کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پی ٹی آئی ووٹرز نے اُمیدواروں کے چہروں کو دیکھنے کی بجائے اپنی جماعت اور بانی جماعت عمران خان سے اپنی بے لوث محبت کی بناء پر بڑھ چڑھ ووٹنگ میں حصہ لیا اور بہت سے غیر معروف چہروں کو اسمبلیوں کی زینت بنا ڈالا۔پاکستان تحریک انصاف آزاد اراکین اسمبلی جو لاکھوں کروڑوں ووٹ لیکر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں انکے لئے دعا اور اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ یقینا وہ بکاو مال ثابت نہیں ہونگے۔ یہ نہ صرف ووٹرز کی توہین ہے بلکہ انکے جذبات کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔کیونکہ اس وقت لوٹا منڈی میں آزاد پنچھیوں کے خریدار وں کی کمی نہیں ہے۔
واپس کریں