وقاص صارم
عمران خان کی موجودہ حکمت عملی اس پنجابی محاورے (آکھن) کی مدد سے سمجھی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ؛
"کہنیاں دِھی نوں تے سناؤنیاں نُو نوں"
خان صاحب کو اچھی طرح پتا ہے کہ انھیں نکالنے میں اصل ہاتھ کس کا ہے۔ کن کے نیوٹرل ہوجانے سے اور ماضی کی طرح حکومت بچانے کے لیے مدد کو نا آنے کی وجہ سے ان کے سیاسی مخالف ان کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوئے ہیں ورنہ جب تک ایک پیج برقرار تھا خان صاحب کسی ڈکٹیٹر کی طرح ملک چلارہے تھے اور ان کے سیاسی مخالفین کو ان کے اوپر کوئی حملہ کرنے کی جرات تک نہیں ہوسکی تھی۔
نیوٹریلیٹی کی کہانی پچھلے سال کے نومبر میں ایک عدد بھاری بھرکم ٹرانسفر پوسٹنگ پر اختلاف سے شروع ہوئی تھی۔ جس پر خان صاحب نے نہایت بچگانہ ردعمل دیا تھا۔ اس ٹرانسفر کا اپروول روٹین میٹر کی طرح چیف صاحب نے کور کمانڈر کانفرنس بلوا کر لیا تھا اور پھر آئی ایس پی آر نے باضابطہ اعلان بھی کردیا تھا۔ مگر خان صاحب نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کی بجائے ضد شروع کر دی کہ ٹرانسفر کے اپروول سے پہلے مجھ سے اجازت نہیں لی گئی حالانکہ خان صاحب نے باہمی رضامندی سے ہی (شاید) احسان کا بدلہ چکانے کے لئے اکثر امور ریاست کی نگرانی ادارے کے حوالے کر رکھیں تھیں۔ اسی کو ہم ہائیبرڈ سیٹ اپ کہتے ہیں۔ پھر خود ہی ان کے اندرونی فیصلے پر اعتراض کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ ادارے نے اسے توہین اور احسان فراموشی تصور کیا یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2021 میں ادارے نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
اب اس نیوٹریلیٹی کے نتیجے میں خان صاحب کی حکومت گر چکی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ واضح غصے کے باوجود خان صاحب کھل کر فوج پر تنقید کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بائیس سالہ سیاست میں یہ اچھی طرح جان گئے ہیں کہ فوج سے کھلی مخالفت مول لے کر وہ کبھی الیکشن نہیں جیت سکتے۔ اسی لئے انھوں نے فوج کو براہ راست نشانے پر رکھنے کی بجائے انڈائریکٹ ہٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سوشل میڈیا مہم کے ذریعے فوج کے سربراہ کی ذات اور ادارے پر اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے مسلسل ٹرینڈز چلوا رہے ہیں۔ اور خود بھی کئی انٹرویوز میں اشاروں کنایوں میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کر چکے ہیں مگر ماضی میں نواز شریف کی اوپن تنقید کے برعکس سامنے بھی نہیں آرہے۔
تاہم انھوں نے فوج کی ایک ایسی کمزوری کو پکڑا ہے جو اس سے پہلے کسی سیاستدان نے اس کمال ہوشیاری سے نہیں پکڑی۔ خان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ ہماری فوج کی دکھتی رگ ہے۔ ہماری فوج کو جنرل مشرف کے زمانے سے اربوں ڈالر کی کولیشن سپورٹ فنڈ اسی امریکہ نے دی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تمام جنریل امریکہ میں ہی مقیم ہوتے ہیں۔ وہ بحیثیت ادارہ امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ یہ انکے مفاد میں ہے۔
خان صاحب نے امریکی سازش کا جو بیانیہ بنایا ہے بنیادی طور پر یہ فوج کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ کیونکہ جلسوں میں امریکی مخالف جذبات کو ابھار کر وہ فوج کو مسلسل پیغام دے رہے ہیں کہ 2018 کی طرح دوبارا میری سپورٹ شروع کر دو اور فورآ الیکشن کروا کر مجھے اقتدار میں واپس لے کر آئیں ورنہ میرے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ میں آپ کے تعلقات امریکہ سے خراب کروا کر آپ کو معاشی نقصان پہنچا سکتا ہوں۔۔۔۔
واپس کریں