ذوالفقار علی شاہ
کون غدار ہے اور کون اصل میں سازش کا پروپیگنڈاکر کے خود سازش کر رہا ہے اس حوالے سے بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے اور کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں ہے کہ جسے سمجھنا مشکل ہو لیکن پروپیگنڈا کے زور پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عوام کو ایسی عینک پہنا دی جاتی ہے کہ جس سے وہی مناظر نظر آتے ہیں کہ جو دکھانے والا عوام کو دکھانا چاہتا ہے ۔ ایک عرصہ تک میڈیا میں پروپیگنڈا کے زور پر عوام کو ایک ایسی عینک پہنائے رکھی گئی کہ جس کی دور کی نظر تو قدرے بہتر تھی لیکن نزدیک کی چیزیں اس عینک سے بالکل بھی نظر نہیں آتی تھیں ۔سالہاسال تک عوام کو سات سمندر پارہزاروں کلو میٹر دور چند کنال کا سرے محل تو نظر آتا رہا لیکن چند کلو میٹر دور نہ بنی گالہ کا محل نظر آیا اور نہ ہی رائے ونڈ محل پر کسی کی نظر پڑی اور برسوں تک یہ دونوں عوام کی نظروں سے اس طرح اوجھل رہے کہ جیسے انھیں سلمانی ٹوپی پہنا کر نظروں سے غائب کر دیا گیا ہے ۔ تحریک انصاف کے قائد اور ان کی پوری جماعت اب بھی ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز والا کلیہ استعمال کر رہی ہے کہ اتنا جھوٹ بولو اور بولتے جائو کہ عوام اسے سچ سمجھنا شروع کر دیں لیکن جھوٹ اور پروپیگنڈا کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں ۔ خان صاحب نے 2018کے الیکشن ے پہلے پیٹرول ، مہنگائی بیروزگاری سمیت بہت سے چورن پروپیگنڈا کی بنیاد پر بیچے جو خوب بکے ۔ ان چورنوں سے بلا شبہ خان صاحب کو اقتدار کی منازل طے کرنی میں آسانیاں پیدا ہوئیں اور ان کے سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچا لیکن ان کی وجہ سے ملک کسی آئینی بحران سے دوچار نہیں ہوا اور نہ ہی ملک کو کوئی نقصان پہنچا لیکن خان صاحب اور پوری تحریک انصاف اور ان کے حامی اس وقت جو کچھ کر رہے ہیں اس سے نہ صرف یہ کہ قدم قدم پر ملک کو آئینی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ عوام میں ایک زبردست قسم کی تقسیم کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور ہم اس کی شدت کو مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی بھانپ چکے تھے اسی لئے بار بار اپنی تحریروں میں خان صاحب کی جانب سے جس تصادم اور انتشار کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے اس کا ذکر کر رہے ہیں ۔
ویسے تو خان صاحب کی شروع دن سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھے بول دو اور جس عمل سے سیاسی فائدہ پہنچے اسے کر گذرو لیکن کچھ اقدام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے نفع نقصان کا حساب سیاستدان آپس میں چکاتے رہتے ہیں لیکن جو کچھ اب کیا جا رہا ہے اس میں حساب کتاب سیاستدانوں کا نہیں بلکہ ملکی اداروں اور ملک و قوم کا بگڑ رہا ہے ۔ اس وقت پوری تحریک انصاف کی جو پالیسی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے خود غیر آئینی اقدام کرتے رہو اور اس کے تدارک کے لئے جب فریق مخالف کوئی قدم اٹھائے تو اس پر غیر آئینی اقدامات کرنے کے الزامات لگا کر شور ڈال دو ۔یہی کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اور پھر اسی کا عکس ہمیں پنجاب اسمبلی میں نظر آیا ۔قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کروا دی گئی ۔ریکوزیشن کا 14دن کے اندر اجلاس بلانا ضروری ہوتا ہے لیکن او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی تنظیم کے اجلاس کو بہانہ بنا کر اس اجلاس میں تاخیر کی گئی اور پھر عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے لئے تحریک کے محرکین کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا ۔اگر قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری غیر آئینی طریقہ سے عدم اعتماد کو مسترد نہ کرتے کہ جو صرف ارکان اسمبلی کا استحقاق ہے تو سپریم کورٹ کو کبھی قومی اسمبلی کے معاملات میں مداخلت کی ضرورت نہ پڑتی جو کہ پہلے بھی فہمیدہ مرزا اور بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے ۔معاملات یہی تک نہیں رکے بلکہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود بھی 9اپریل کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا تو اس کے ردعمل میں جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ پر عملدرآمد کروانے کے لئے رات کو اپنے دروازے کھلوائے تو اب خان صاحب اور ان کی جماعت ہر جگہ سپریم کورٹ سے شکوے کرتی نظر آ رہی ہے کہ رات کو دروازے کیوں کھلوائے حالانکہ اگر اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے منفی طرز عمل پر ایک نظر ڈال لیں تو سپریم کورٹ یا کسی اور کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔
جو کچھ قومی اسمبلی میں کیا گیا اس سے بڑھ کر پنجاب اسمبلی میں کیا گیا اور اب تک کیا جا رہا ہے ۔ہفتہ والے دن ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کا ردعمل آنا ہی تھا اور اسی لئے یہ سب کچھ کیا گیا لیکن جب رد عمل آیا تو پھر غیر آئینی کا شور مچا دیا گیا اور وزیر اعظم کی جانب سے گورنر پنجاب کو ہٹائے جانے کی سمری پر صدر مملکت دستخط نہیں کر رہے اور اس کے جواب میں جب دوسری طرف سے کچھ ہو گا تو کہا جائے گا کہ غیر آئینی ہے اور اس سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ کے پی کے اور سندھ کے گورنر تو مستعفی ہو گئے لیکن پنجاب میں چونکہ حمزہ شہباز نے وزارت اعلیٰ کا حلف لینا تھا اس لئے یہاں پر یہ جواز تراشا گیا کہ جب تک صدر مملکت انھیں عہدے سے نہیں ہٹائیں گے اس وقت تک وہ اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے ۔ اب اندازہ کریں کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ کتنے دنوں سے آئینی سربراہ یعنی وزیر اعلیٰ کے بغیر چل رہا ہے لیکن دوسروں کو غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے والوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی احساس ۔ انھیں اگر پرواہ ہے تو فقط اپنے سیاسی مفادات کی کہ وہ پورے ہونے چاہئیں چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔اگلے کالم میں کوشش کریں گے کہ خان صاحب دوسروںکے حوالے سے غداری اور ملک دشمنی کے جو چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے اصل محرکات کیا ہیں لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ جس طرح پہلے سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوتے تھے تو جس جماعت کا جلسہ ہوتا تھا وہ لاکھوں کا دعوی کرتی تھی جبکہ مخالفین اسے جلسی کا نام دے کر چند ہزار لوگوں کا اجتماع قرار دیتے تھے لیکن یا حیرت کہ تحریک انصاف تو اپنے جلسوں کو کامیاب قرار دے رہی ہے لیکن میڈیا سمیت نئی حکومتی اتحاد کی کوئی جماعت بھی تحریک انصاف کے ان دعوئوں کو رد نہیں کر رہی بلکہ حد یہ ہے کہ میڈیا میں کوئی یہ سوال بھی نہیں اٹھا رہا کہ پشاور یا کراچی کے جلسہ میں کرسیاں کتنی لگائی گئی تھی تاکہ ان سے ہی کچھ اندازہ ہو سکے کہ جلسہ میں حاضرین کی تعداد کتنی تھی ۔ بات یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں اندھے کو حافظ ، انتہائی کمزور آدمی کو پہلوان ، درزی کو ماسٹر اور موٹر مکینک کو استاد کہا جاتا ہے تو اسی طرح کی ملتی جلتی صورت حال آج کل ملک میں غدار اور محب وطن کے حوالے سے ہے کہ جو ہے وہ نہیں ہے اور جو نہیں ہے وہ ہے کے دعوے ہو رہے ہیں لیکن امید ہے کہ بہت جلد تصویر واضح ہو جائے گی اور اس میں جو جس مقام پر کھڑا ہے صاف صاف نظر آنا شروع ہو جائے گا اور پتا لگ جائے گا کہ کون اصل میں محب وطن ہے اور کون غدار ہے ۔
واپس کریں