دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عسکری قیادت کا واضح موقف
ذوالفقار علی شاہ
ذوالفقار علی شاہ
مبینہ خط کہہ لیں مراسلہ کہہ لیں یا کچھ اور ۔ اس حوالے سے عمران خان صاحب نے جو سازشی تھیوری قوم کے سامنے پیش کی تھی اس کا بھانڈا تو بیچ چوراہے میں اسی دن پھوٹ گیا تھا کہ جس دن قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا تھا اور اس میں کسی نام نہاد سازش کا ذکر نہیں تھا بلکہ صرف مداخلت کا لفظ تھا ۔اس سے پہلے کہ گفتگو کو آگے بڑھائیں یہاں رک کر ایک بات پر غور کر لیں کہ قومی سلامتی کمیٹی میں صرف فوجی اور سول اسٹبلشمنٹ نہیں تھی بلکہ اس کمیٹی کا جو اجلاس تھا اس کی صدارت سابق وزیر اعظم کر رہے تھے اور اس میں وزیر اعظم کے علاوہ بھی حکومتی شخصیات بیٹھی تھیں ۔اب خان صاحب کی ضدی فطرت اور ان کی انا پرستی کو ذہن میں رکھیں اور سوچیں کہ اس اجلاس میں خان صاحب نے اجلاس کے اعلامیہ کے متن میں کیا کیا جتن نہیں کئے ہوں گے کہ اس میں سازش کا لفظ شامل ہو جائے ۔

ہم کوئی راکٹ سائنس بیان نہیں کر رہے کہ جو سمجھ میں نہ آ سکے بلکہ ایک عام فہم بات کر رہے ہیں تو خان صاحب اور حکومتی ارکان نے کیا کوشش نہیں کی ہو گی کہ اس اعلامیہ میں سازش کا ذکر آ جائے تاکہ ان کی نام نہاد سازشی تھیوری میں جان پڑ جائے لیکن مراسلہ میں ایسی کوئی بات ہوتی تو تب اسے اعلامیہ میں شامل کیا جاتا اور پھر جب سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ والے کیس میں محترم چیف جسٹس نے نعیم بخاری
سے اس میٹنگ کے منٹس مانگے تھے تو اگر ان منٹس میں بھی سازش کی کوئی بات ہوتی تو کیا نعیم بخاری نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دلانی تھی ۔ خان صاحب نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سازش کے لفظ پر کس حد تک زور دیا ہو گا اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں دوران سماعت میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ اس خدشہ کے پیش نظر کہ کہیں سپریم کورٹ دفتر خارجہ کے نمائندے کو بلا کر مراسلہ پر ان کا بیان نہ لے تو میڈیا رپورٹس کے مطابق خان صاحب نے دفتر خارجہ کے افسر کو وزیر اعظم ہائوس بلا کر اسے سختی کے ساتھ کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بلاتی ہے تو وہاں جا کر کیا بیان دینا ہے ۔ اس صورت حال میں کیا کوئی اس بات کا تصور بھی کر سکتا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں خان صاحب اور دیگر حکومتی زعما نے ایڑھی چوٹی کا زور نہیں لگایا ہو گا کہ کسی طرح بھی اعلامیہ میں سازش کا ذکر آ جائے اور عین ممکن ہے کہ مراسلہ میں اگر ہلکا سا اشارہ یا کہیں سازش کا شائبہ تک بھی ہوتا تو خان صاحب نے بات کا پتنگڑ بنا کر سازش کا ذکر اعلامیہ میں شامل کروا کر دم لینا تھا لیکن سازش کا ذکر نہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی ذکر مراسلہ میں ہے ورنہ یقین کریں کہ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب سیکیورٹی قوانین کو بائی پاس کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی جواز تراش کر اس مراسلے کو ہی عوام کے سامنے لے آتے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بھی اپنی پریس بریفنگ میں یہی بات کہی ہے کہ مداخلت کا تو ذکر ہے لیکن سازش کا ذکر کہیں نہیں ہے اور اگر سازش کا ذکر نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ سازش نہیں ہوئی ۔ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں کی عادت ہے کہ وہ ہر بات کو اپنے من پسند مفہوم میں لیتے ہیں اور اپنی پسند کے معنی پہناتے ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی واضح انداز میں سازشی تھیوری کی تردید کے بعد بھی وہ خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ جناب انھوں نے مداخلت کا تو تسلیم کیا اب یہ کیا بات ہوئی کہ اس بات کو تو تسلیم کر لیا جائے کہ ناریکی ہے لیکن اندھیرا ہونے سے انکار کیا جائے ۔ اس طرح کی گفتگو سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہے کہ جس کا کچھ حاصل وصول نہیں ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ صرف لفاضی ہی کہہ سکتے ہیں کہ جس میں خان صاحب اور ان کے چاہنے والے اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ مداخلت کے لفظ کو لے کر جس طرح کی باتیں سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہیں ضروری ہے کہ مداخلت کے حوالے سے کچھ وضاحت کر دی جائے تاکہ بات آسانی سے سمجھ آ جائے ۔

صرف ہم نے نہیں بلکہ قارئین نے بھی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ میڈیا میں سنا بھی ہو گا اور اخبارات میں پڑھا بھی ہو گا کہ ہم کسی کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ جس نے مداخلت کرنی ہوتی ہے وہ نہ تو کسی سے اجازت لے کر کرتا ہے اور نہ ہی اس طرح کسی سفیر کو بلا کر اور بتا کر مداخلت کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس طرح بھی ہوا ہے کہ پاکستان یا کوئی اور ملک بھی اگر کوئی ایسا قانون بناتا ہے یا پھر کسی سیاستدان یا صحافی کو گرفتار کرتا ہے یا پھر کسی سیاسی ، مذہبی یا کسی بھی طرح کے پر امن اجتماع پر حکومت کی جانب سے ریاستی تشدد کیا جاتا ہے تو اس طرح کے واقعات پر بین الاقوامی برادری اور ہیومن رائٹس والے اس پر جب کوئی بیان دیتے ہیں تو پاکستان اور دیگر ممالک بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملکی معاملات میں مداخلت ہے ۔ اس طرح مداخلت کئی طرح کی ہوتی ہے اور اس پورے معاملہ میں تو ہمیں یہی نہیں پتا کہ مداخلت اگر ہوئی بھی ہے تو کس انداز اور کس نوعیت کی ہے ۔ اس لئے کہ سیکرٹ ایکٹ کی وجہ سے سب کچھ تو پردے میں اور خان صاحب کے ماضی کا ٹریک ریکارڈ کوئی ایسا قابل رشک نہیں ہے کہ ان کی کہی ہوئی کسی بات پر انسان آنکھیں بند کر کے یقین کر لے ۔ایک اور اہم بات کہ میڈیا پر ہی وزارت خارجہ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بتایا کہ اس قسم کے ہزاروں مراسلے وزارت خارجہ کے ریکار روم میں پڑے ہوں گے کیونکہ ایسے مراسلے آتے رہتے ہیں اور کبھی ان پر جواب دے دیا جاتا ہے اور کبھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔

اس حوالے سے نئے منتخب وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس بلا کر اس میں یہ معاملہ رکھیں گے اور اس میں عسکری قیادت کو بھی دعوت دیں گے ۔ہماری رائے میں اس معاملہ کومنطقی انجام تک پہنچانے کا سب سے بہتر ذریعہ ہی یہی ہے اور جیسا کہ شہباز شریف نے کہا کہ اس اجلاس مں اس سفیر کو بھی بلایا جائے گا کہ جس نے یہ مراسلہ بھیجا تھا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔ امید ہے کہ جب یہ اجلاس ہو جائے گا تو جو فریق سچا ہے اس کے حصہ میں دودھ آئے گا اور جو فریق جھوٹا ہے اس کے حصہ میں کم از کم زیادہ نہیں تو چلو بھر پانی تو آ ہی جائے گا کہ جو ڈوب مرنے کے لئے کافی ہو گا ۔ ہم نے اپنے مزاج کے خلاف اتنی سخت بات اس لئے کہی ہے کہ اگر تو کسی نے سازش کی ہے تو اس پر یقینا یہی آرٹیکل 6لگتا ہے جس کی سزا موت ہے اور اگر کسی نے جھوٹا الزام لگایا ہے تو سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر اس پر بھی یہی ایکٹ لگے گا لہذا انتظار کریں کہ وقت ہی سب سے بڑا منصف ہے ۔
واپس کریں