ذوالفقار علی شاہ
عمران خان اور ان کی جماعت جو بیانیہ اپنا رہی ہے اس کی کوئی ایک وجہ بھی کم از کم ہمیں سمجھ نہیں آ رہی ۔کہنے کو آپ سو باتیں بنا لیں لیکن کیا ان باتوں کی کوئی اہمیت بھی ہو گی مثلاََ کہا گیا کہ ہم ان چوروں ڈاکوئوں اور اب نئے چورن کے مطابق ملک دشمنوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو سوال یہ ہے کہ 2013سے لے کر2018تک آپ کن کے ساتھ بیٹھے تھے اور پھر 2018سے لے کر اب تک تین سال اور آٹھ مہینوں تک کن کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ اگر اس تمام عرصہ میں تحریک انصاف انھی چوروں ڈاکوئوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ بیٹھی رہی ہے تو اب کیا مسئلہ ہو گیا اور اگر کوئی بہت ہی سنجیدہ قسم کا مسئلہ ہو ہی گیا ہے تو اگر قومی اسمبلی میں ان کے ساتھ بیٹھنا حرام ہو چکا ہے توکیا سینٹ میں ان چوروں ڈاکوئوں اور ملک دشمنوڈں کے ساتھ بیٹھنا حلال ہے اور اسی طرح ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ان چوروں ڈاکوئوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ بیٹھنا اگر جائز ہے تو کیا ایک کام جو اسلام آباد میں حرام اور دیگر مقامات میں حلال ہو جاتا ہے اس کی وجوہات پر کوئی روشنی ڈالے گا یا اندھی تقلید لب کشائی کی بھی اجازت نہیں دیتی ۔ اسلام آباد میں یہ اتنا بڑا گناہ ہو گیا کہ اسپیکر نے کہا کہ میرا ضمیر نہیں مانتا کہ میں اس عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کروائوں ۔ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ان کا ضمیر بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس عمل کا حصہ بنے اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ اس سارے عمل کا بائیکاٹ کرتے ہیں ۔بات یہی تک نہیں
رکی بلکہ صدر مملکت کہ جو حلف اٹھانے سے پہلے اگر کسی سیاسی جماعت کے ر کن ہوتے ہیں تو وہ اس جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو جاتے ہیں انھوں نے بھی ملک کے منتخب وزیر اعظم سے حلف لینے سے انکار کر دیا کہ جو ان کا آئینی فرض تھا ۔اس کا صاف اور سیدھا سمجھ میں آنے والا مطلب یہ ہے کہ حلف اٹھانے سے پہلے کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت سے استعفی دینا اور یہ کہنا کہ صدر مملکت کسی جماعت کے نہیں بلکہ ریاست کے سربراہ ہیں اور اسی طرح یہ بھاشن بھی ساری عمر سنتے رہے ہیں کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ غیرجانبدار ہوتا ہے یہ سب کچھ ڈرامہ تھا حقیقت تو اب کھلی ہے کہ جو مرضی کہہ لیں لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ عہدہ کوئی بھی ہو حلف چاہے سو مرتبہ لے لیںلیکن کوئی بندہ بھی ریاست یا آئین کا نہیں بلکہ اپنی سیاسی جماعت کا وفادار ہوتا ہے ۔
خان صاحب کا حرام اور حلال کا فلسفہ صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ فلسفہ ان کی زندگی میں ہر جگہ نظر آتا ہے ۔2013میں الیکشن ہوئے تو انھوں نے اس کے فوری بعد 35پنکچرز کا واویلا شروع کر دیا اور اسے لے کر انھوں نے 126دن تک اسلام آباد میں دھرنا دے کر ایک نیوکلیئر پاور کے دارالحکومت کو جام کر کے رکھ دیا بعد میں ایک موقع پر کہا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا ۔اس دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کئے گئے
اور آج جو حب الوطنی کے بھاشن دیئے جا رہے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے اپنے تمام مخالفین کے متعلق غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹے جا رہے ہیں تو اس وقت ان کے دھرنوں کی وجہ سے چین ایسے انتہائی اہم دوست اور دنیا کے اہم ترین ملک کے صدر کا دورہ ملتوی ہو گیا لیکن چونکہ خان صاحب کے لئے ہر کام حلال اور جائز ہے اس لئے نہ تو ان کی حب الوطنی پر کوئی
آنچ آئی اور نہ ہی کسی کو انھیں غدار کہنے کی جرات ہوئی ۔انھوں نے اس وقت بھی پوری کوشش کی تھی کہ اگر یہ نہیں تو پھر کوئی نہیں لہٰذا پورے سسٹم کو ہی ڈی ریل کر دیا جائے اور دھرنوں کے درمیان انھوں نے اس وقت بھی قومی اسمبلی سے استعفے دیئے تھے اس وقت ان کا بیانیہ تھا کہ وہ دھاندلی زدہ اسمبلیوں میں نہیں بیٹھے گے اور آج ان کا موقف یہ ہے کہ وہ ملک دشمنوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے ۔کیا یہ قوم کے ساتھ ایک انتہائی بھونڈا مذاق نہیں ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں کیا یہ حب الوطنی ہے یا خود پرستی کی انتہا ہے ۔
ایک ایسا کاغذ کہ جس کی حقیقت ہی مشکوک ہے اس کو بنیاد بنا کر اپنے پورے مخالفین کو غدار قرار
دینا اور پھر پورے سسٹم کو یرغمال بنا دینا اور صرف اور صرف اپنی ذات کو سامنے رکھ کر سوچنا کہ مجھ سے بہتر اور کوئی نہیں ہے ۔حماقت کی انتہا یہ ہے کہ تین اپریل کو جب ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق آئین پاکستان کہ جس کا انھوں نے حلف اٹھا رکھا ہے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فواد چوہدری کی تقریر کے بعد جب عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کیا تھا تو اس وقت ان کے پاس کون سے ثبوت تھے اور اس وقت تو انھوں نے اس مبینہ خط کو دیکھا بھی نہیں تھا اس لئے کہ خط تو خود ا ن کے بیان کے مطابق انھوں نے 9اپریل کو دیکھا ۔اسی طرح اسپیکر اور صدر مملکت تک جو ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی ہیں اور پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ بھی ہیںاس بڑے منصب تک کو مملکت کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ایک عہدیدار کی حیثیت سے کردار ادا کرنے پر مجبور یا راضی کہہ لیں کیا گیا ۔اس سے پہلے پاکستان کے وزیر داخلہ ہر روز میڈیا سے بات کر کے کہتے تھے کہ میں نے تو وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ گورنر راج لگا دو اسمبلیاں توڑ دو پارلیمنٹ سے استعفے دے دو ۔کمال ہے کیا یہ جمہوری روئے ہیں یا ان رویوں کے ساتھ حب الوطنی کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور اصرار بلکہ شدید اصرار ہے کہ ان مضحکہ خیز دعوئوں کو من و عن تسلیم بھی کیا جائے اور جو نہیں کرے گا وہ غداروں کی صف میں شامل کیا جائے گا ۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ تحریک انصاف کیا کرتی ہے اور اس کے مخالفین کیا کرتے ہیں لیکن خدارا ہم نے ساری عمر جمہوریت اور آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی ہے تو وہ جدوجہد کیا اس لئے تھی کہ اسے اس طرح کے مضحکہ خیز نعروںکی نظر کر دیا جائے ۔جب ہر مورچے پر شکست فاش ہو چکی ہے تو اب بلیک میلنگ کی انتہا کو پہنچ کر قومی اسمبلی سے استعفے دیئے جا رہے ہیں ۔تحریک انصاف کی جس پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں استعفوں کا فیصلہ ہوا ہے اس میں سے بیشتر ارکان نے مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا لیکن ہر حال میں جیت کے خوہش مند کو بھلا یہ مشورے کہاں قائل کر سکتے تھے لہٰذا انھوں نے کہاں کہ کوئی اور استعفی دے یا نہ دے لیکن میں ضرور دوں گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے کتنے استعفے آتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے جلسوں کا بھی پروگرام بنایا ہے اور وہ پہلا جلسہ بدھ 13اپریل کو پشاور میں کر رہے ہیں ۔آخر میں ہم صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ ہمیں خان صاحب کی ہر بات تسلیم ہے لیکن کوئی ہمیں یہ تو بتا دے کہ درجن سے زیادہ غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کو اپنا مشیر بنا کر یہ کون سے امریکہ کے خلاف جنگ ہے اور جس کے اپنے بچے برطانیہ میں رہتے ہوں تو ہم نہیں کہتے بلکہ خان صاحب ہی کہتے ہیں کہ جن کی دولت ملک سے باہر ہے وہ دوسرے ملکوں کے سامنے کیسے سر اٹھا کر بات کریں گے تو انسان کی سب سے بڑی دولت تو اس کی اولاد ہوتی ہے تو جس کی اولاد ملک سے باہر ہو وہ کیسے اغیار کے سامنے سر اٹھا کر بات کر سکتا ہے ؟
واپس کریں