دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کا آنا یا جانا صحیح ہے یا غلط ؟
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ
جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ، راولپنڈی
عمران خان کا آنا یا جانا صحیح ہے یا غلط ؟اسکا میں جواب نہیں دوں گا۔۔سرمایہ دارانہ اسٹرکچر میں کام کرنے کا آخری نتیجہ ٹشو پیپر کیطرح استعمال کر کے آخر کار باہر پھینکنا ہی ہے۔ 70 سال کی یہی تاریخ ہے۔۔سرمایہ دارانہ فریم ورک میں کام کرنے کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایسا کون سا وزیر اعظم ہے جس نے آج تک 5 سال کی آئینی مدت آرام و سکون اور اطمینان کے ساتھ مکمل کی ہو۔۔۔ سیاسی عدم استحکام کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا ۔۔انتشار سے لبریز سیاسی صورتحال میں معیشت پھر کہاں سے ترقی کرے گی۔۔ یہ ایک تاریخی المیہ ہے۔۔۔
لیکن عمران خان کی جگہ جو شکلیں سامنے آ رہی ہیں ، انکا تصور بھی کر کے دل خون کے آنسو روتا ہے، اس ملک کی 60 فیصد آبادی جو نوجوانوں پر مشتمل ہے انکی قیادت پھر وہ مفاد پرست کریں گے جو پچھلے 30 سال سے ہم پر مسلط ہیں، ایسے نالائقوں اور جاہلوں سے ہم کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔۔یہ سب پیدائشی طور پر امریکی بلاک کا حصہ اور سرمایہ دارانہ مفادات کے محافظ ہیں۔۔ ان میں سے کوئی ایک لیڈر ایسا دکھا دیا جائے جسکی جائدادیں ، بینک اکاؤنٹس اور اولادیں روس و چین میں رہتی ہوں ، یا سینٹرل ایشیاء کی نیشنلٹی ہولڈر ہوں یا پھر پاکستان اور ریجن کے ساتھ کوئی محبت اور انس نظر آتا ہو۔۔ ایک عام انسان کے سمجھنے کے لئے یہ ایک مثال ہی کافی ہے۔۔۔
بین الاقوامی سطح پر دنیا کی قیادت ایشیاء کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔۔ یورپ ایشیائی قوتوں کے سامنے پٹ رہا ہے۔۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا فورم ، اقوام متحدہ کو سخت ٹکر دے رہا ہے لیکن امریکی ایجنٹوں کو دوبارہ ہم اپنے اوپر مسلط کرنے کا سوچ رہے ہیں۔۔ اس وقت نیو ورلڈ آرڈر کو سمجھنے کی ضرورت ہے لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ دور اندیشی کے بجائے اپنے گروہی مفادات سے باہر نہیں نکل رہی۔۔ ہمارے دوست روایتی سیاسی پارٹیوں کی حمایت اور مخالف میں الجھ کر اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں ، حمایت و مخالف میں ایسے ایسے شخصی اوصاف گنوائے جاتے ہیں جنکے سامنے شاید پریاں بھی شرما جائیں ، اجتماعی تجزیے اور مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کو بنانے کے بجائے پارٹیوں اور لیڈروں کی مخالف کا ماحول ہے۔۔
ایک عام پاکستانی کی صحت پر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی و ناکامی کا نہ کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی وہ اثر لینا چاہتا ہے ، اسے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے غرض ہے ، اس کے گھر میں کوئی بھی راشن ڈال کر نہیں دیتا ۔۔ وہ پہلے بھی بھوکا تھا اور آج بھی بھوکا ہے۔۔ ٹوٹل آبادی کی 85 فیصد آبادی کا نمائندہ یہ بھوکا آدمی جب تنگ آ کر اٹھے گا تو پھر سب تخت گرائیں گے اور سب تاج اچھالے جائیں گے۔۔ پھر روایتی نعرے بازی کا کلچر اور منافقانہ سیاست نہیں ہو گی بلکہ ایک انقلاب ان سرمایہ داروں کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہو گا اور اپنا حق چھین کر لے گا ۔۔۔
اس ملک کی داخلی صورتحال آج نہ سہی ، لیکن کل ضرور ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی۔۔ ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔۔ وہ جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔ خدا اور فرشتوں کی مدد بھی پھر شامل حال ہوتی ہے ۔۔۔
واپس کریں