"سوشل میڈیا سیلیبریٹیز" ۔ کالم نگار۔ خرم امتیاز
خرم امتیاز
پاکستان میں سوشل میڈیا کے فروغ کا وقت وہی تھا جب سنہ 2011 تا 2018 میں عمران خان کی فُل گُڈی چڑھائی جا رہی تھی۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی تاریخ سے نابلد اور مشرف دور کے اواخِر میں ہوش سنبھالنے والے کالج یونیورسٹی کے جذباتی بچے بچیوں کے ہاتھ جب سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ لگے تو انھوں نے جوق در جوق سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنا کر خان کی باقاعدہ کیمپین کی۔ خاکسار خود اپنے زمانہءِ جاہلیت میں کچھ دیر کیلئے اس کیمپین میں حصہ ڈال چکا۔
اُس سمے عمران کو سپورٹ کرنا اور اُس سپورٹ کا اظہار کرنا باقاعدہ فیشن اور اسکی مخالفت کرنے والا ببانگِ دہل پینڈو، جاہل، ذہنی غلام، کرپٹ اور پٹواری خیال کیا جاتا تھا۔
سوشل میڈیا کے پرانے صارفین جانتے ہیں کہ 'یُوتھیا' کی اصطلاح دراصل سوشل میڈیا پر بکثرت استعمال ہونے والے لفظ 'پٹواری' ہی کی تکرار کا ردعمل ہے، جو بعدازاں ن لیگ کے سپورٹرز نے استعمال کرنا شروع کی۔
ایسے میں اِن اولین سیلیبریٹی لکھاریوں، صحافیوں اور یُوٹیوبرز کی بڑی تعداد نے اپنے کانٹینٹ میں خان کی طرف جھکاؤ ظاہر کر کے مِلّین کی تعداد میں نوجوان فالوورز/سبسکرائبرز اکٹھے کرنے کا کام شروع کیا۔ جو بوجوہ عمران کو سپورٹ نہیں کر سکتے تھے، انھوں نے اینٹی عمران لائن اپنا کر دوسری جانب کی خلقت کو کیپچر کرنا شروع کر دیا۔ کچھ نے تو فالوورز کے اس خزانے کو پکا پکا ساتھ رکھنے کیلئے نیٹ ورکس اور واٹس ایپ گروپس تک بنا لیے۔ سب سے سیانے وہ تھے جنہوں نے اِن فالوورز کے بَل پر مستقل آنلائن بزنس کھڑے کر لیے۔ اُن بھلے وقتوں میں معیار کی بجائے سوشل میڈیا پر موجودگی اور دستیابی زیادہ معنے رکھتی تھی۔ جبکہ آج کسی نئے پیج یا چینل کیلئے اوسط درجے کے کانٹینٹ پر سبسکرائبرز اکٹھے کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
بطور آئی ٹی پروفیشنل یہ سب میری سٹڈی کا حصہ ہے کہ کیسے لکھاری اور یوٹیوبرز ایک دوجے کو خوامخواہ اینڈورس اور ریکومینڈ کرتے رہتے ہیں اور کیسے بارہا اشتراک کرکر کے ایک دوسرے کے فالوورز، سبسکرائیبرز اور کاروبار بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ کیوں صرف اُسی فرینڈ کی پوسٹ پر لائک اور کمنٹ کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے فالوورز کی تعداد ہم سے زیادہ یا ہمارے ہم پلہ ہو، اور کیوں اپنی پوسٹ کی رِیچ اور سکوپ بڑھانے کیلئے کچھ خاص فرینڈز کو ٹیگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
میں ذاتی طور پر اس تمام پراسیس کو کچھ ایسا غلط تصور نہیں کرتا۔ اور سمجھتا ہوں کہ یہ ماڈرن سماجی رابطے بلاشبہ وقت کی ڈیمانڈ بھی تھے۔ اور کچھ ذہین اور مستقبل شناس اشخاص نے انھیں خوبصورتی سے استعمال بھی کیا۔ اور کچھ سیلیبریٹیزز نے وقتاً فوقتاً بیحد مثبت کانٹینٹ بھی پیش کیا ہے۔ جس سے یقیناً میری طرح بہت سوں نے سیکھا بھی ہو گا۔
مگر اِن میں سے بیشتر سوشل میڈیا سیلیبریٹیز کو اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے باقاعدہ ہوا کے رُخ پر چڑھتے سورج کیلئے لکھنا اور بولنا پڑا۔ ان کی پوسٹ/ویڈیو/ٹویٹ پر اختلاف کرنے والے کے کمنٹ پر انکے فالوورز یلغار کر کے اسکی طبیعت درست کردیتے۔ جب کبھی وہ بیلنس کرنے کو تصویر کا دوسرا رخ بیان کر کے پارسائی کا کوئی بت پاش پاش کرنے لگتے تو اپنے ہی فالوورز کی جانب سے مزاحمت دیکھنے کو ملتی۔ ایسی پوسٹس اور ویڈیوز پر لائکس اور شئیر کم ہو جاتے۔ اس سے انھیں اپنے آپ ڈائریکشن ملتی گئی کہ پاپولیریٹی کیلئے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔ کئی سال کانٹینٹ جنریٹ کر کے یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ سیٹ کرنے والے بھگوان بن چکے ہیں۔ مگر اب انھیں بھی دکھائی دینے لگا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے۔
میرے لیے دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ حالات اور ہواؤں کے تبدیل ہوتے رُخ بھانپ کر جب یہ سیلیبریٹیز اپنی سوکالڈ کریڈیبیلیٹی کھو دینے اور مستقبل میں حالاتِ حاضرہ کے تجزیوں سے غیر متعلقہ ہو جانے کے ڈر سے اپنے ماضیءِ قریب کے افکار سے یُوٹرن لینے لگتے ہیں تو اِن کے اپنے فالوورز اور سبسکرائیبرز گالم گلوچ سے انکی خوب کلاس لیتے ہیں۔ تبھی آجکل یہ فرسٹریٹ ہو کر ہر دوسرے دن بلاک، انفرینڈ کرنے اور پوسٹ کو فرینڈز اونلی کرنے کی وارننگ جاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
واپس کریں