قمر نقیب خان
"اگر بالاکوٹ شہر نہ بنا تو زلزلہ متاثرین کے ساتھ مل کر احتجاج کروں گا" چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوران سماعت یہ الفاظ شہباز شریف کو کہے تھے. پھر جسٹس ثاقب نثار بھی سینگوں سمیت گدھے کی طرح غائب ہو گئے. یہ زلزلہ 2005 میں آیا تھا اور عالمی برادری نے زلزلہ زدگان کے لیے پانچ ارب ڈالر امداد دی تھی. پرویز مشرف نے پانچ ارب ڈالر کی خرد برد کے لیے "ایرا" بنا دی، سپریم کورٹ نے تیرہ سال بعد حکومت سے پوچھا وہ پانچ ارب ڈالر کہاں گئے تو جواب ملا کہ ملتان میٹرو اور بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں لگا دئیے.
پیپلزپارٹی حکومت میں سیلاب سے بڑی تباہی آئی، سیلاب اس قدر شدید تھا کہ ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی امداد کی پیشکش کی. سعودی عرب، عرب امارات، قطر، عمان اور ترکی نے کروڑوں ڈالر امداد دی. طیب اردگان اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان تشریف لائے اور سیلاب زدگان کی امداد کے لئے خاتون اول نے ہار دے دیا، یہ ہار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی بیوی کو دے دیا. ظاہر ہے بیگم صاحبہ سے زیادہ سیلاب زدہ مستحق کون ہو سکتا ہے؟؟؟
اس سیلاب پر بھی دنیا بھر سے اربوں ڈالر امداد ملی لیکن غریب عوام تک نہیں پہنچ سکی. این ڈی ایم اے اور سول بیوروکریسی کھا گئی. مثلاً 2014 سیلاب میں حکومت پنجاب نے سیلاب سے بچنے کے لیے 57 ارب روپے مختص کیے، ضلع چنیوٹ کے موضعوں کے لیے 28 کروڑ روپے خزانے سے نکلوائے، مگر غریبوں کی بجائے اپنی شوگر مل کے لیے سڑک بنوا لی.
کرونا وائرس آیا تو پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی تھے اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل محمد افضل ہوتے تھے، کرونا چیک کرنے کی لاکھوں کٹس عطیہ کی گئیں لیکن مریضوں سے پیسے لے کر ٹیسٹ کیے جاتے رہے. دنیا بھر سے کروڑوں ماسک، دستانے اور میڈیکل کور بھیجے گئے. حکومت کو تو سب کچھ مفت ملا لیکن عوام کو ہر چیز کی قیمت چکانی پڑی.
کرونا وائرس کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک نے اربوں ڈالرز کی گرانٹ دی تھی، جب انٹرنیشنل آرگنائزیشن امداد دیتی ہے تو پھر حساب کتاب بھی مانگتی ہے. سپریم کورٹ نے کرونا امداد کا حساب کتاب مانگا تو این ڈی ایم اے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل افضل نے لکھ کر جواب دیا کہ پچیس لاکھ روپے فی مریض خرچ ہوا ہے، تین سو ملین ڈالر کی خرد برد پر جنرل صاحب سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا لیکن ڈالر نہیں لیے گئے. این ڈی ایم اے آج بھی حاضر سروس جنرل چلا رہے ہیں جو کہ سراسر ایک سویلین عہدہ ہے.
حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں کوئی آفت آتی ہے این ڈی ایم اے کہیں بھی نظر نہیں آتا. مری برف باری میں پھنس کر کئی افراد مارے گئے تھے کوئی مینجمنٹ نظر نہیں آئی. حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، چیف آفیسر سے لے کر خاکروب تک سب کو ملتی ہے. نہیں ملتی تو بس متاثرین کو نہیں ملتی. ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے بلوچستان کے کوہلو میں سیلاب زدگان کی امداد ڈپٹی کمشنر صاحب کھا گئے تھے اور عوام نے ان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا.
2005 زلزلے سے لے کر آج تک آنے والی تمام قدرتی آفات کی لسٹ بنائیں، ہر زلزلے، سیلاب اور کرونا کے لیے پاکستان کو کتنی امداد ملی ٹوٹل لگائیں پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اس ٹوٹل امداد کا دس فیصد بھی آفت زدہ عوام کو نہیں مل سکا. ساری امداد سارے ڈالر پاک فوج اور بیوروکریسی کھا گئی.
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
واپس کریں