دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا محض یوم سیاہ منانے سے کشمیریوں پر مظالم کا ازالہ ممکن ہے
زوبی اللہ داد ریاض
زوبی اللہ داد ریاض
دن منانے اور دن پھیرنے میں بہت فرق ہے۔جو کارنامے سر انجام دیے گٸے ہوں وہ دن یاد گار اور فخر کے طور پر مناٸے جاتے ہیں مگر کشمیر کے حوالے سے جب ہم 5 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی بات کرتے ہیں تو بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں کیا محض یوم سیاہ مناکر اور ایک دو گھنٹے تقریرں کر کے ا محض ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے ہم آزادی کشمیر کے لیے کون سے کا ر ہاٸے نمایاں سر انجام دے رہے ہیں اس وقت دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے انڈیا کے اتنے بڑے عالمی غیر آٸنی اور غیر قانونی اقدامات پر کیا محض زبانی کلامی یوم سیاہ منانے کے بجاۓ ہم نے کوٸی قانونی چارہ جوٸی کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں یا محض ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے پھر مستقل خاموشی کی طرف گامزن ہیں دو سال سے مقبوضہ کشمیر کے باسی قید کی زندگی گزار رہے ہیں قید کر کے ان کو قتل بھی کیا جا رہا ہے اور بیلٹ گنوں سے ان کی آنکھیں اندھی اور چہرے مسخ کیے جا رہے ہیں ان جاری جراٸم کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھاٸے گٸے ہیں یا محض ہم نے انڈیا کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعاوں پر اکتفا کیا ہے اور محض اپنوں کی آنکھوں میں مزید دھول جھونکی ہے اس حوال سے بھی سوچنا اور جواب دینا ہو گا انڈیا کے ان اقدامات جو درج زیل ہیں ان کا توڑ بھی سوچا کہ نہیں۔

اگست 2019 کو ایک صدارتی حکم نامے میں، مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اقدام کیا جس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کوہندوستانی ریاستوں کے دیگر باشندوں کے مقابلے میں الگ الگ قوانین کے تحت شہریت، جائیداد کی ملکیت اور بنیادی حقوق کے تحت خصوصی حیثیت دی تھی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا بھارتی اقدام متنازعہ علاقوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی نمائندگی کرتا ہے۔5 اگست 2019 کے بعد، مودی حکومت ہندو انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس کے دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کے لیے ہندوستانیوں کو کشمیر میں آباد کرنے کی راہ ہموار کرنے کی سازش کر رہی ہے6 مارچ 2020 کو حد بندی کمیشن اور 31 مارچ 2020 کو ڈومیسائل قانون کے نفاذ کے علاوہ، مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور کسی بھی ریفرنڈم کے نتائج کو متاثر کرنے کے حتمی مقصد کے ساتھ آبادیاتی تبدیلی جاری ہے۔

آبادیاتی تبدیلی کے ایجنڈے کے حصے کے طور پر، حد بندی کمیشن نے مئی 2022 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔حد بندی کمیشن نے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تمام 90 اسمبلی حلقوں کے نقشے تبدیل کر دیے ہیں۔اور 1995 میں کی گئی آخری حد بندی کی فہرست سے 19 موجودہ حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے یا حذف کرنے کے علاوہ 28 نئے حلقوں کا نام تبدیل کر دیا۔کمیشن نے جموں ڈویڑن میں درج فہرست قبائل کے لیے نو۔جموں ڈویڑن میں چھ اور کشمیر ڈویڑن میں تین اور جموں ڈویڑن میں درج فہرست ذاتوں کے لیے سات نشستیں مخصوص کی ہیں.جموں ڈویڑن میں کٹھوعہ، سانبہ، راجوری، ڈوڈا، ادھم پور اور کشتواڑ اضلاع میں چھ نئی اسمبلی سیٹیں بنائی گئی ہیں۔کمیشن نے ایک حلقے کا نام شری ماتا ویشنو دیوی بھی رکھا ہے۔کشمیریوں کے خلاف مظالم کی گئی 5 اگست 2019 سے دسمبر 2021 تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جون 2022 تک98 ماورائے عدالت قتل, 515 کشمیری شہید ,33 خواتین بیوہ , 82 بچے یتیم , 2,172 لوگ زخمی ہوئے۔17,139 افراد کو گرفتار کیا گیا۔1,058 املاک کو نقصان پہنچا, انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جنوری 2021 سے دسمبر 2021 تک 210 کشمیری شہید,17 خواتین بیوہ 44بچے یتیم,487 لوگ زخمی,2,716 افراد گرفتار,67املاک کو نقصان پہنچا,1989 سے محصور کشمیریوں کے خلاف بھارتی جرائم کیتحت 96,046 کشمیری شہید ,22,940 کشمیری زخمی,11,246 خواتین کی عصمت دری,107,855بچے یتیم,110,451مکانات اور انفراسٹرکچر تباہ 8,652 اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں,2014 سے کشمیریوں کے خلاف پیلٹ گنز کا استعمال کرکے120کشمیری شہید ,15,500شدید زخمی ہوگے,ڈومیسائل 5 اگست 2019 سے جاری ہوئے۔ مقبوضہ علاقے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے نتائج کو تبدیل کرنے کے مقصد سے کشمیریوں کو ان کے آبائی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں 3.4 ملین سے زائد جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔

اگر انڈیا اپنے ایک جاسوس کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے اور اس کے اقدامات پر اور عالمی عدالت کے پریشر میں آکر اس وقت کی پاکستانی حکومت قوانین میں ترامیم کر کے ایک جاسوس کو وکالت کی رساٸی دے سکتی ہے تو کیا بے گناہ اہنے گھروں میں قید کشمیریوں پر ظلم عالمی سطح پر لا کر انھیں انصاف نہی دلایا جا سکتا پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے کیا وکیل نے وکالت کے تقاضے پورے کیے ہیں آزاد کشمیر جسے آزادی کا بیس کیمپ قرار دیا گیا ہے کیا آزاد حکومت بیس کیمپ کے تقاضے پورے کر رہی ہے یا محض غلامی میں لتھڑے اقتدار کی خرید و فروخت سے فرصت نہی لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ ان تمام حالت و واقعات پر نظر رکھ کر پاکستانی اور آزاد کشمیر کی عوام نے جن کے دل حقیقی معنوں میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں مجبوروں اور محکوموں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اپنے حکمرانوں سے حساب لینا ہو گا اور ان کا کردار بھی سامنے لانا ہو گا۔
واپس کریں