دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئینی عہدیدار اور دوھری شہریت
زوبی اللہ داد ریاض
زوبی اللہ داد ریاض
موجودہ دور میں ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ڈنگ ٹپاو اقدامات اور بروقت انصاف کی عدم فراہمی اور من گھڑت تشریح کے زریعے آئین کا نام لے کر غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینا اور منی لانڈرنگ اور غلط اقدامات سے قومی اداروں کو نقصان پہنچا کر پتلی گلی سے نکل جانا ہے
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز کے تمام آئینی اور و حکومتی عہدیداروں کی دوہری شہریت کے حصول پر پابندی عائد ہونی چاہیے
تاکہ ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ ہم نے کوٸی بھی خلاف آٸین کام کیا یا اپنے عہدے کا غلط اور بے جا استعمال کرتے ہوٸے آٸین کی چھتری کے نیچےقوانین میں ہیرا پھیری کی تو اس کے نتاٸج بھگتنا پڑیں گے اور فرار کا کوٸی راستہ ممکن نہیں۔
اس حوالے سے پابندی نہ ہونے یا ان قوانین میں سقم ہونے کے نتیجے میں اور سزا وجزا کے کما حقہ نفاذ کی عدم موجودگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعلی آٸینی عہدوں پر فاٸز اور ملک وعوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والی شخصیات ان عہدوں کو شیر مادر سمجھ کر ان کابے جا استعمال اور آٸین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہوۓ غیر آٸینی اقدامات کے مرتکب ہو کر ریٹاٸرمنٹ یا عہدے کی مدت پوری ہونے پر ملک سے فرار کا راستہ اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اسی طرح ایک حکومت کے ادھورے منصوبے نٸے آنے والے پورے کرنے کے لیے تیار نہی ہوتے محض اس لیے کہ ان پر ٹیگ دوسروں کے لگے ہوتے ہیں
اس طرح نٸے آنے والوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں وہ اپنے مقاصد لے کر انٹری کرتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں کو پوچھنے اور حساب لینے والا نہی ہوتا۔محض عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یا اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اور مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے بڑے بڑے دعوے اور اعلانات کر کے احتساب کے نام پر احتساب کے اداروں کو بے توقیرکیا جاتا ہےاور اکثر و بیشتر شرفاء کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں اور سالہا سال کیسز چلنے کے بعد اور ملکی کرڑوں روپے سے بھی زاٸد وساٸل کا اسراف کر کے نتیجہ صفر ہی رہتا ہے اور وہ مقدمات داخل دفتر کر دیے جاتے ہیں طویل ترین پیشیوں اور عدالتی گھمن گھیریوں میں الجھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ملزمان بے گناہ ہیں اور اصل مجرم اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور پھر انھی فرسودہ بیانات کی رٹ سننے کو ملتی ہے کہ مفرور کو واپس لا کر اس سے حساب لیا جا ۓ گا قانوق کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاۓ گا وغیرہ وغیرہ مگر کچھ عرصہ بندر کی چھلانگوں والی بھاگ دوڑ اور بلی چوہے والا کھیل جاری رکھنے کے بعد ملک کے یہاں بھی بے دریغ وساٸل استعمال کرنے کے بعد اس معاملے پر بھی مٹی ڈال دی جاتی ہے ایسی تمام مشقوں کے بعداس سے قبل یہی ثابت ہوا ہے کہ” کھایا پیا کچھ نہی گلاس توڑا بارہ آنے“ لہذا ملک کو فلاحی ریاست بنانے اور مستحکم اور مضبوط بنانے اور عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنے اور خوشحال بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جنکے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہو ان کو یہ معلوم ہو کہ انھوں نے اسی ملک میں رہنا ہے اور اپنے کیے پر کسی بھی وقت جواب دہ ہونا ہے اور لمحہ بہ لمحہ عوام اور خواص کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہ اس یقین کے ساتھ اپنے فرأٸض سرانجام دیں گے تو وہ ہر قدم سوج سمجھ کر اٹھاٸیں گے۔اور ان کے پیش نظر رہے گا کہ ان کے اقدامات اور فیصلے زندگی بھر ان کا پیچھا کریں گے
یہی فیصلے ان کے لیے عزت و وقار کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور دوسری صورت میں ان کے گلے کا طوق بھی بن سکتے ہیں پھر وہ کوشاں ہونگے ایسے فیصلے کرنے پر جن سے ان کے کردار پر انگلی نہ اٹھے
۔کسی بھی ملکی اہم عہدے پر فاٸز ہونے والے یا آٸینی عہدیدار کے عہدے پر فاٸز ہونے سے پہلے اس کے لیے یہ حلف نامہ لازم قرار دیا جاٸے کہ وہ ریٹاٸرمنٹ کے بعد کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل نہی کرے گا اور نہ اس سے قبل اس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہے۔
اس طرح اگر فیصلہ سازوں پتہ ہو کہ ان کی جاٸیدادیں ان کے بچے اور ان کا مرنا جینا اس ملک میں ہے ان کا مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے تو وہ اپنا ملک اور اپنا گھر سمجھ کر فیصلے اور اقدامات کریں گے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے وہی لوگ جو ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں ان میں سے اکثریت کی جاٸیدادیں اور اولاد اس ملک میں نہی ہوتی اور ان کی اپنی بھی شہریت کسی اور ملک کی ہوتی ہے وہ کماتے اس ملک سے ہیں اور جمع دوسرے ملکوں میں کرتے ہیں اس لیے نہ یہاں ان کا سٹیک ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ہمدردی یا خوف ہوتا ہے ان کی بلا سے ملک ترقی کرتا ہے یا تنزلی کا شکار ہوتا ہے انھیں بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ زرا سی ہواٸیں چلیں گی تو ساتھ ہی اس چڑیوں کے چمبے نے اڑ جانا ہے
دوسری صورت میں اگر ان شخصیات نے ملک کی بہتری اداروں کی مظبوطی اور عوام کی فلاح وبہبود اور آٸین کی سربلندی کے لیے بہترین خدمات سر انجام دی ہونگی تو انھیں ہمیشہ اس پر فخر رہے گااور وہ عوام اور خواص میں ہر دلعزیز ہونگے اور وہ محب وطن کے طور پر عزت و وقار کا نشان ہونگے ان کے بعد آنے والے بھی ان سے رہنماٸی اور ان کے رہنما اصولوں پر کاربند ہوتے ہوۓ مزید بہتری کی طرف گامزن ہونگے
اس کے برعکس اگر کسی نے یہ آٸینی عہدہ اپنے ذاتی مقاصد کسی مخصوص ایجنڈے یا کسی کو خوش کرنے کے لیے ملکی مفاد کے برعکس استعمال کیا ہو گا تو وہ بھی مستقل طور پر نشان عبرت بنتے ہوٸے عوام اور قانون کی نظر اور گرفت میں رہیں اور ساتھ ساتھ اپنے کالے کرتوتوں کو بھگتتے رہیں۔
مگر یہاں مکمل طور پر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے حکومتیں اپنی مرضی کے عہدیدار اور بیورو کریسی اور عہدیدار اپنی مرضی کی حکومتیں لانے کے چکر میں ملک کا اور عوام کا حشر نشر کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر دیکھا جاٸے تو اہم عہدوں پر فاٸز رہنے والے عہدیدار اور بیورو کریٹ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ریٹاٸر منٹ سے پہلے پہلے یا فورن بعد اس کی دولت اولاد اور اس کو ملک سے باہر جانے کا فرار ہونے کا محفوظ راستہ مل جاٸےاور ان میں اکثریت دوہری شہریت سے مستفید ہوتے ہوٸے لہزا وہ انٹ شنٹ فیصلے اور اقدامات تو پاکستان کے لیے کرتے ہیں اور اپنی اصل پناہ گاہ کہیں اور تلاش کر رکھی ہوتی ہے
اور پھر وہ اپنی اصل پناہ گاہ کی طرف عازم سفر ہو جاتے ہیں اور ان کے فیصلوں اور اقدامات کا خمیازہ پاکستان اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور کوٸی ان سے حساب لینے پوچھنے والا نہی ہوتا ۔اس طرح ہمارا منہ تو آگے کی طرف مگر قدم پیچھے کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔
واپس کریں