دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مبارک۔ خاموش اکثریت بولنے لگی
محمود شام
محمود شام
منافقتوں، آلودگیوں اور بے اصولیوں کا مقابلہ کرتا پاکستان یہ ثابت کر رہا ہے کہ سرمایہ و شمشیر کی یکجائی۔ اسّی اور نوّے کی دہائی کی طرح بلا روک ٹوک نہیں چل پارہی ہے۔ قدم قدم پر امرا کو تجربہ ہورہا ہے کہ پیسے سے سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ محلّات سے اب صدا نہیں ابھرتی۔ بھیّا۔ سب سے بڑا روپیہ۔
ایک ہائی کورٹ کے قاضی القضاۃ ایک خطاب میں کھلے عام کہہ رہے ہیں۔ ’’ہمیں اپنے فیصلے اپنے ضمیر کی آواز پر نہیں۔ قانون کے مطابق کرنے ہوتے ہیں‘‘ بہت برحق۔ آج کل کے نظام انصاف کی یہ روح ہے۔ قانون وقت بنانے والے۔ پارلیمنٹ کے ارکان ایک مخصوص طبقے کی طاقت اور اختیارات میں اضافے کیلئے قانون بناتے ہیں۔ عوام کی زندگی آسان بنانےکیلئے نہیں۔ پراسیکیوٹر ان قوانین کی روشنی میں مقدمے قائم کرتے ہیں۔ عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ ضمیر تڑپتا رہتا ہے۔ اسے اکثر گھر پر یا چیمبر میں چھوڑنا پڑتا ہے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں،پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے دنیا بھر کی باتیں کرنے، نوجوانوں کے ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ اکثر اوقات تو بڑے بچوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ تازہ ترین معلومات اسمارٹ فون دیکھنے والوں کے پاس زیادہ ہیں۔ لیکن ان معلومات کاپس منظر بزرگوں کے پاس۔ اتوار ان معلومات اور پس منظر کو یکجا کرنے اور مکمل کرنے کا دن بنتا ہے۔ میری گزارش یہ بھی ہوتی ہے کہ نماز عصر کے بعد محلے والے بھی آپس میں ملیں، خلق خدا بجلی کے بلوں سے نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہے۔ مملکت خداداد میں روز مرہ کے مسائل اور معمولات کا سسٹم بکھر چکا ہے۔ اس لیے قدم قدم اپنوں کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ہمسائے، گلی محلے والے ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ المیے ہر روز برپا ہورہے ہیں، آئل ٹینکر کے بے قابو ہونے سے ہم وطن گاڑی سمیت اس کے نیچے دب کر کہانی ادھوری چھوڑ گیا ہے۔ کراچی ڈیفنس کے پُر شکوہ علاقے میں قبائلی تنازعات گھس آئے ہیں۔ فائرنگ کا تبادلہ، کئی قبائلی نوجوان ہلاک ہوگئے ہیں، شہر سسٹم سے محروم ہیں، مشترکہ خاندان ٹوٹ چکا ہے۔ درس، تقریریں، ورکشاپ، سیمینار، وعظ بے اثر ہورہے ہیں۔ بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ جائیداد کے تنازعات پر بیٹے ماں باپ کو، باپ بیٹوں کو ہلاک کررہے ہیں، یہ ایک انتشار اور ادبار کا زمانہ ہے۔ کون ہے اس قرن کا مجدد ۔ کون ہے۔ اس خطّے کا رہنما۔
اخبار، برقی میڈیا، ٹی وی چینل، جریدے، خانقاہیں، گدیاں اپنا اثر کھو رہی ہیں۔ اقتدار کمزور ہو رہا ہے، ریاست اور لوگ ایک دوسرے کے اعتماد سے محروم ہیں۔ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ دوسری تیسری نسل تک موروثی قیادت پہنچ چکی ہے۔ پارلیمنٹ ہے، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ، یعنی ایوان بالا مگر انہیں بالا دستی حاصل نہیں رہی۔ الیکشن کمیشن جانبداری کے سبب اپنا مقام کھو چکا ہے۔ عدالتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ انصاف دے سکیں۔ مگر ایسا ماحول نہیں بن پا رہا۔ حکمران صرف اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں بلکہ انکی خواہش صرف یہ ہے کہ وہ جو چاہیں، فرمان امروز بن جائے۔ عدالتیں اس کی توثیق کر دیں۔ گزشتہ ایک کالم میں ہم نے عظیم مورخ علامہ ابن خلدون کے الفاظ میں اپنی قوم کے زوال کے اسباب تلاش کیے تھے۔ شخصی حکمرانی کو علامہ ابن خلدون نے ریاست کی کمزوری اور سلطنت کے ضعف کی بنیادی وجہ قرار دیا تھا۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اشخاص ہی پاکستان کے انحطاط کا سبب دکھائی دیتے ہیں۔ چاہے وہ صدر رہے ہوں، وزیر اعظم، چیف جسٹس یا آرمی چیف۔ ادارے جب اپنے مقاصد اور اصولوں کے تحت چلے ہیں۔ ملک آگے بڑھا ہے۔
اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سب سے نمایاں اور مثبت تبدیلی یہ ہے کہ خاموش اکثریت بولنے لگی ہے۔ مختلف عشروں میں ہم لکھتے رہے ہیں، بولنے والے بولتے رہے ہیں کہ ہماری اکثریت خاموش کیوں رہتی ہے۔ اب تاریخ دیکھ رہی ہے کہ خاموش اکثریت اپنے ضمیر کا اظہار کھل کر کر رہی ہے۔ اسے اسمارٹ فون میسر آ گیا ہے، وہ جب چاہے، جیسا چاہے، اسکرین پر لکھ دیتی ہے، بول دیتی ہے۔ الفاظ، آواز اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا عکس بھی۔ وہ اب نہ خود کو چھپانا چاہتی ہے نہ اپنے مافی الضمیر کو۔ یہ تاریخی تبدیلی ہے، منطقی موڑ ہے۔ پہلے جب اخبار یا ٹی وی عوامی اظہار کو اپنے صفحات یا اسکرین پر موقع نہیں دیتے تھے۔ وہ شہر کی دیواروں کا رُخ کرتے تھے۔ ’وال چاکنگ‘ میں اپنے ضمیر کی آواز نقش کرتے تھے۔ ایڈیٹر کے نام خطوط میں اپنا دُکھ بیان کرتے تھے۔ جب اخباروں نے ایڈیٹر کے نام مراسلات بند کر دیے۔ عوام کی آواز کو جگہ دینا چھوڑ دی۔ تو عوام نے بھی میڈیا کو چھوڑ دیا، میڈیا کا حلقۂ اثر بہت محدود ہو گیا ہے۔
اسمارٹ فون، خاموش اکثریت کی آواز بن رہا ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک سماجی اطلاعاتی، ابلاغی، علمی، اشاعتی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ فکر طلب امر یہ ہے کہ یہ آلات سامراجی ملکوں کی کمپنیوں نے ہی ایجاد کیے ہیں۔ پوری دنیا میں ریاست کا رسوخ دم توڑ رہا ہے۔ حکمران طبقوں کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ سامراجی طاقتیں کیا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ وہ غریب ملکوں میں بالآخر کیا نظام لانا چاہتی ہیں۔ ذمہ دار قومیں اسمارٹ فون یا سوشل میڈیا سے از خود ملنے والے اس ڈیٹا سے اپنے حالات میں اصلاح کرتی ہیں۔ خامیاں دور کرتی ہیں۔ اطلاعات کے اس سیلاب کو وہ اپنے خلاف تحریک نہیں سمجھتی ہیں۔ بلکہ اس سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ ان کی روشنی میں اپنے قوانین بناتی ہیں۔اب جب خاموش اکثریت کھل کر بول رہی ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض سے، سندھ کے گوشے گوشے سے آپ کو ضمیر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، پنجاب،جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب، خیبر پختونخوا، ضم ہونے والے قبائلی اضلاع، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے ذہن، دل اور ضمیر کے جذبات، خیالات از خود آپ کے سامنے آ رہے ہیں۔ ریاست اسے اپنا اثاثہ سمجھے۔ اپنا قدرتی اطلاعاتی وسیلہ خیال کرے۔ یہ مملکت کو آگے لے جانے میں سب سے بڑا سبب بن سکتا ہے۔ ضعف مملکت کو روک سکتا ہے مگر نیت ملکی مفاد ہونا چاہئے۔ شخصی اقتدار نہیں۔
عالمی ضمیر انسانیت کیلئے یہ ایجنڈا تشکیل دے رہا ہے۔ ورلڈ اکنامکس فورم کا لائحہ عمل فطرت کی طرف واپسی ہے۔ ماحول کو سر سبز کرنا ہے۔ ہریالی اور ٹیکنالوجی کی یکجائی ہو رہی ہے۔ مستقبل کیلئے کیا کیا مہارت درکار ہے۔ سر سبز ماحول اور ساتھ ساتھ اقتصادی برابری۔ بہت مشکل اہداف ہیں۔ فضا کو مزید مسخر کرنا چاہتے ہیں۔ تجسس یہ ہے کہ ہریالی انسان اور کائنات دونوں کی خدمت کیسے کر سکتی ہے۔ کم توانائی سے موسم کیسے سازگار کر سکتے ہیں۔ چین کی ترقی سے دنیا پر کیسے اثرات پڑ رہے ہیں۔
یہ اطلاعات مجھے اسمارٹ فونوں سے ہی مل رہی ہیں۔ آپ کو بھی میسر آ سکتی ہیں۔ اپنے گھر کومستحکم کریں، محلے کو اور اپنے ملک کو۔ حسیں صبحیں۔ ہرا بھرا ماحول آپ کا بھی مقدر ہے۔ خاموش اکثریت کی سنیں۔ وہ برسوں بعد بولی ہے۔
واپس کریں