محمود شام
میں کل رات سے کٹہرے میں کھڑا ہوں۔نئے ہزاریے کی پیدائشوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر رکھی ہے،میری درخواست کوئی نہیں مان رہا۔ میں عرض کررہا ہوں کہ مجھے سوالنامہ دے دیں۔ جیسے نیب ایف آئی والے دیتے ہیں، میں اطمینان سے بیٹھ کر ان کے جوابات قلمبند کردوں گا۔
میری اپنی اولادیں کہہ رہی ہیں کہ آپ کو سات دہائیاں دی گئیں کیا وہ وقت کم تھا۔ آپ ذمہ دار ہوتے تو خود ہی ان سوالات کے جواب دے رہے ہوتے۔ آج یہ نوبت نہ آتی کہ ہم آپ جیسے بزرگ کو،جن کے قویٰ مضمحل ہوگئے ہیں، جن کی یادداشت کمزور ہوگئی ہے، جنہوں نے کتنے عشرے مصلحتوں میں گزار دیے، جن کیلئے غالب بہت پہلے کہہ گئے تھے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
آپ نے اس اترانے میں ہی کتنے قیمتی، قدرتی وسائل نظر انداز کردیے، کتنے انسانی وسائل کو استعمال نہیں ہونے دیا یا انہیں دوسرے ملکوں میں جانے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے وہاں جاکر ان کے بینک کامیاب کردیے۔ ان کی گلیاں سونے کی کردیں۔
یہ میرے اپنے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں،بہوئیں داماد ،مجھے کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا صاف صاف کہنا ہے کہ اب ہم آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتے۔ ہم نے تو سوشل میڈیا سے جان لیا ہے کہ اس مملکت خداداد کے پاس کتنے قدرتی وسائل ہیں۔ کتنے معدنی ذخائر ہیں۔ ہمارے انسانی وسائل کے بازوئوں میں کتنی توانائیاں ہیں۔ ہمارے بھائیوں بہنوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آپ اور آپ کے ممدوحین پریذیڈنٹ ہائوسوں میں داخل ہوتے رہے۔ وزیر اعظم ہائوسوں کی زینت بنتے رہے۔ گورنر ہائوسوں کو استعمال کرتے رہے۔ وزارتِ اعلیٰ کی کرسیاں توڑتے رہے۔ لیکن کبھی کوئی ایسا راستہ نہیں اپنایا جس سے اس عظیم سر زمین کے ہر بیٹے بیٹی کی صلاحیت اس عظیم وطن کو خوشحال بنانے میں معاونت کرتی۔
ایک طرف سے آواز آرہی ہے کہ آپ کے ہم عصر ساتھیوں کو تو احساس ہی نہیں تھا کہ کتنا زیاں ہورہا ہے۔ آپ تو اپنے دیوتائوں کو آخری امید سمجھتے رہے۔ بتائیے کہ آپ کے پاس کوئی ایسی رپورٹ ہے جس میں یہ شواہد دیے گئے ہوں کہ 1947سے اب تک جو بھی ماہ و سال بنتے ہیں، جو بھی ہفتے، گھنٹے بنتے ہیں۔ ان میں سے کتنے کسی خاص مقصد کیلئے استعمال ہوئے۔ کتنے خوشامد میں چاپلوسی میں صرف کیے گئے۔ چلئے ہمیں بتائیں کہ اس خوشامد سے کھیتوں کی فی ایکڑ پیداوار کتنی بڑھی، کتنا اناج برآمد کیا گیا، کتنی کپاس سے کتنے ڈالر کمائے گئے۔
میرے بائیں طرف سے یلغار ہورہی ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے یہ جواب دیں کہ ہزاروں ارب روپے کے یہ جو قرضے ہیں جن کیلئے ہم سب بلکہ ہماری اولادیں بھی گروی رکھ دی گئی ہیں۔ یہ بوجھ کن منصوبوں کیلئے ہم پر ڈالا گیا۔ یہ قرضے آپ کی نسلوں نے کیوں نہیں اتارے۔ یہ اربوں ڈالر کن دریائوں کے ڈیموں پر لگے، کونسے کارخانے لگائے گئے، ان کارخانوں، ڈیموں اور موٹر ویز سے جو آمدنی ہوئی۔ وہ قرضے اتارنے میں کیوں استعمال نہیں ہوئی اور اب آپ لوگوں کی عیش و عشرت میں استعمال ہونے والے قرضے ہم کیسے اتاریں۔
ایک نوجوان بھیڑ کو کاٹتا ہوا آگے بڑھا ہے۔ کہہ رہا ہے، یہاں ہر علاقے کے ہر زبان بولنے، ہر نسل سے ،ہر قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان موجود ہیں۔ ہم صرف پاکستانی ہیں، ہم صرف آتا وقت ہیں۔ ہم تو یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں نئے ذرائع ابلاغ نئی ایجادوں نے یہ سکھایا ہے کہ ہم صرف جمع تفریق کریں۔ اچھا برا دیکھیں۔ آپ کی نسل ہمیں کوئی ایسی دستاویز فراہم کرسکتی ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں کتنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ کیا کوئی کتاب آپ نے ایسی لکھی جس میں ایسے اعداد و شُمار ہوں کہ کتنے نوجوان نجی جیلوں میں، کتنے عقوبت خانوں میں کتنے حوالات میں ،کتنے جیلوں میں دم توڑ گئے۔ ان کی صلاحیتیں اس بد قسمت ملک کی ترقی کیلئے کیوں استعمال نہ ہو سکیں۔ جن ہستیوں کو وطن کی سلامتی کے نام پر پھانسی گھاٹوں میں، تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا، ان کی موت سے اس ملک میں کتنی خوشحالی آئی، کتنے ماورائے عدالت ہلاکتوں میں، پولیس مقابلوں میں مارے گئے، کیا ان کی توانائیاں اس سماج کو مستحکم کرنے میں کام نہیں آ سکتی تھیں۔
کیا آپ کے کسی ساتھی پارلیمانی رپورٹر نے ایسی رپورٹ مرتب کی کہ سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں میں کتنے گھنٹے قوم کی خوشحالی، اقتصادی ترقی کیلئے قائم منصوبوں پر تقریریں ہوئیں۔ کتنے گھنٹے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں بجٹ دستاویزات اور دوسرے بلوں کے مسودے پھاڑنے میں ضائع کیے گئے۔میں ہر طرف سے سوالوں میں گھرا ہوا ہوں۔ یہ نئے ہزاریے والے بہت مستند حساب کتاب رکھتے ہیں۔ گوگل اور دوسرے سرچ انجن ان کو ہر لمحہ باخبر کر دیتے ہیں۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ انہیں اسمارٹ فون سے دور رکھیں۔ کبھی زہریلے پروپیگنڈے کا کہا، کبھی پورنو گرافی کا،کبھی اساسی نظریات سے انحراف کا لیکن یہ ہمارے عزیز از جان بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں تو بہت مصدقہ معلومات رکھتے ہیں۔ بہت تیار ہوکر آئے ہیں، اپنا بھی نفع نقصان دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ ملک کا ۔ واہگہ سے گوادر تک یہ سب اب ٹیکنیکل اقتصادی زاویۂ نگاہ اور اندازِ فکر رکھتے ہیں۔ ہماری نسلوں کی طرح شہزادے شہزادیوں کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتے۔ نہ ہی جنوں پریوں کی داستانیں پڑھتے ہیں۔ یہ ہیر رانجھا۔ سوہنی مہینوال۔ سسی پنوں کی کہانیوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ یہ عاشق معشوق اگر اپنے مشن میں ناکام رہے تو اس کے اقتصادی اسباب کیا تھے۔ سماجی ڈھانچہ کیا تھا۔
ایک بیٹی پوچھ رہی ہے۔ ریکوڈک میں سونا تانبا کتنی دہائیوں سے سے ہے۔ اب تک کیوں نہیں نکالا جا سکا۔ اس سے ہمارے دن سنہرے کیوں نہیں ہو سکے۔ سینڈک سے جو سونا تانبا نکلا ہے۔ اس کے ڈالروں سے اس علاقے میں کتنی خوشحالی آئی ہے۔
ایک پوتی آواز بلند کر رہی ہے۔ بجلی کے بل اب اتنے زیادہ ہو رہے ہیں، دریائوں کا پانی ضائع ہوتا رہا، بڑا ڈیم بنا کر بجلی کیوں پیدا نہیں کی گئی۔ ایک نواسہ ہاتھ میں قلم کاغذ لیے سوال کر رہا ہے کہ اتنے اخبارات نکلتے رہے، اتنے ٹی وی چینل، پہلے پاکستانی ٹی وی ۔کہیں ایسی رپورٹ نہیں کہ انہوں نے اپنے طور پر تحقیق کی ہو کہ پاکستان میں اپنے قدرتی، معدنی وسائل پوری طرح استعمال میں کیوں نہیں لائے گئے اور غیر ملکی قرضے ہر دَور میں کیوں لیے گئے۔
میں مہلت مانگ رہا ہوں مگر یہ نئے ہزاریے والے کہہ رہے ہیں مہلت بہت دی جا چکی۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی دنیا سے چالیس پچاس سال پیچھے ہیں۔ مزید مہلت دی تو سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔
واپس کریں