مرزا اشتیاق بیگ
دنیا کی آبادی میں ہوشربا اضافے کا اندازہ سال نو کے موقع پر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یکم جنوری کو دنیا میں 3 لاکھ 95 ہزار بچوں نے جنم لیا۔ رپورٹ کے مطابق سال نو پر بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھارت پہلے نمبر پر رہا جہاں یکم جنوری کو 69 ہزار 944بچے پیدا ہوئے جبکہ چین 44 ہزار 940 بچوں کے ساتھ دوسرے، نائیجریا 25 ہزار 685 بچوں کے ساتھ تیسرے، پاکستان 15 ہزار 112 بچوںکے ساتھ چوتھے، انڈونیشیا 13 ہزار 256بچوں کے ساتھ پانچویں، امریکہ 11 ہزار 86 بچوں کے ساتھ چھٹے، جمہوریہ کانگو 10 ہزار 53 بچوں کے ساتھ ساتویں اور بنگلہ دیش 8 ہزار 428بچوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہا۔ اِس طرح پاکستان بچوں کی پیدائش کے حوالے سے سرفہرست ممالک میں چوتھے نمبر پر رہا جس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال نو پر کوئٹہ کے ایک شہری کے ہاں 60ویں بچے کی پیدائش ہوئی جس کا نام ’’خوشحال خان‘‘ رکھا گیا جبکہ پاکستان خوشحال ممالک میں شامل نہیں۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے UNFPA نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی شرح آبادی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہےکہ پاکستان کی آبادی 1.9 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور ملکی آبادی 22 کروڑ 80 لاکھ تک جاپہنچی ہے جو باعث تشویش ہے۔
دنیا آج بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے اور دنیا کی مجموعی آبادی 8ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔ سن 1800ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 130 سال بعد 1930ء میں دگنی یعنی 2 ارب ہوگئی اور پھر صرف 30 سال میں بڑھ کر 3 ارب ہوگئی، اِس طرح دنیا کی آبادی میں ہر 12 سال میں ایک ارب افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور آج دنیا کی آبادی 8 ارب سے تجاوز کرگئی ہے لیکن افسوس کہ اِن 8 ارب انسانوں میں سے ایک ارب سے زائد افراد خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی شرح آبادی 0.26 فیصد اور مجموعی آبادی ایک ارب 42 کروڑ 25 لاکھ، دوسرے نمبر پر بھارت کی شرح آبادی 1.04 فیصد اور آبادی ایک ارب 41 کروڑ، تیسرے نمبر پر امریکہ کی شرح آبادی 0.70 فیصد اور آبادی 33 کروڑ 90 لاکھ، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا کی شرح آبادی 0.81 فیصد اور آبادی 27 کروڑ 64 لاکھ، پانچویں نمبر پر پاکستان کی شرح آبادی 1.9 فیصد اور آبادی 22 کروڑ 80 لاکھ جبکہ بنگلہ دیش 0.95 فیصد شرح آبادی اور 17 کروڑ 20 لاکھ آبادی کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس طرح پاکستان کی شرح آبادی بنگلہ دیش سے دگنی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا تو اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان سے زیادہ تھی مگر آج ہم نے آبادی میں اضافے کی دوڑ میں بنگلہ دیش کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گوکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے مگر نئے سال پر بچوں کی شرح پیدائش کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر آچکا ہے اور اگر آبادی میں اِسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب 2050ء تک پاکستان کی آبادی 30کروڑ تک جاپہنچے گی جو لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ایک ’’ٹائم بم‘‘ کی مانند ہے جس کے پھٹنے کی صورت میں پورا ملک تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے کیونکہ ملک میں بڑھتی آبادی کیلئے تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، ٹرانسپورٹ اور روزگار دستیاب نہیں۔ پاکستان جو ایک زمانے میں زراعت میں خود کفیل تصور کیا جاتا تھا، آج بیرون ملک سے زرعی اجناس امپورٹ کرنے پر مجبور ہے اور ان حالات میں جب ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی امپورٹ بل کی ادائیگی سے بھی کم ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنا تشویشناک صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔
پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ اور ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کے اشتہارات ٹی وی چینلز اور اخبارات میں دے کر اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہے جو پیسے کا ضیاع ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش جیسا ماڈل اپنائے جس نے اسلامی ملک ہونے کے باوجود آبادی کنٹرول کرنے میں مساجد اور علما کی خدمات حاصل کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کئے اور شرح آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔ حکومت کو چاہئے کہ آبادی کی روک تھام کیلئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرئے جس کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے۔ اگر حکومت نے آبادی کے جن پر قابو پانے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری کے باعث بدامنی اور دہشت گردی جیسے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
واپس کریں