دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئین سے کھلواڑ۔ عدم اعتماد مسترد
مرزا اشتیاق بیگ
مرزا اشتیاق بیگ
گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے آئین سے جو کھلواڑ کیا گیا، قوم اس پر دنگ اور حیرت زدہ ہے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے جس طرح غیر ملکی مداخلت کو بنیاد بناتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دے کر مسترد کیا، اس کے خدشات تو موجود تھے لیکن حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے، اس کا اندازہ کوئی بھی ذی شعور نہیں کرسکتا تھا۔ آئین کے ساتھ مذاق کرکے عمران خان تحریک عدم اعتماد کی ہزیمت سے خود تو بچ گئے تاہم ملک کو آئینی بحران سے دوچار کردیا۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کہ عمران خان کو اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی جو انہیں کسی صورت برداشت نہیں تھی اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ قرارداد کو مسترد کرادیا جائے تاکہ وہ قومی اسمبلی تحلیل کرسکیں جسے بعد میں صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کردیا اور ملک کو غیر یقینی صورتحال سے دوچارکردیا۔واضح رہے کہ 27 مارچ کو وزیراعظم نے ایک جلسے میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے جس کیلئے امریکہ، اپوزیشن کو بھاری فنڈنگ فراہم کررہا ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے تحریک عدم اعتماد میں امریکہ کے ملوث ہونے سے انکار کردیا۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات میں انہیں اپنا ذاتی دوست قرار دیا تھا جس پر عمران خان فخر محسوس کرتے تھے اور وہ امریکی الیکشن میں ٹرمپ کی جیت کے خواہاں تھے۔ امریکی صدر بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ عمران خان نے امریکہ میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو ان کے مخالف سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مدد کی ہدایات کی تھیں، اس انکشاف کے بعد بائیڈن انتظامیہ سے ان کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہوئی اور برسراقتدار آنے کے بعد امریکی صدر نے حکومتی کوششوں کےباوجود، عمران خان کو فون کرنا گوارہ نہ کیا جس پر اکثر یہ کہتے سنے گئے کہ سابقہ حکمران امریکہ کے خوشامدی تھے اور وہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جبکہ عمران خان نے جلسے میں یورپ کو بھی کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ عمران خان کا امریکہ کے خلاف ایبسلوٹلی ناٹ کا بھی پی ٹی آئی حکومت نے بڑا پرچار کیا اور یہ تاثر دیا کہ عمران خان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ امریکہ جیسے ملک کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال کرسکتا ہے جبکہ امریکہ کا موقف تھا کہ انہوں نے پاکستان سے کبھی فضائی اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا۔ عمران خان اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے چکے ہیں جس سے امریکہ خوش نہیں۔ اس تمام چپقلش کے بعد پاکستان کے امریکہ سے تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہوگئے جب اسٹیبلشمنٹ اور وزارت خارجہ کے منع کرنے کے باوجود عمران خان نے روس یوکرین کشیدگی کے دوران روس کا دورہ کیا اور ان کے روس میں قیام کے دوران جنگ چھڑگئی۔ واضح رہے کہ روس یوکرین تنازع کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک ہر اس ملک کے ساتھ سخت رویہ اختیار کررہے ہیں جو روس، یوکرین جنگ میں روس کا حامی تصور کیا جارہا ہے۔

عمران خان کے امریکہ پر لگائے گئے الزامات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے اور امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی پیدا ہونے کے خطرات پیدا ہوئے۔ ایسے موقع پر اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ کا انعقاد خوش آئند بات ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ امریکہ ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور پاکستان امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کے اس بیان کو بزنس کمیونٹی کی سب سے بڑی ایپکس باڈی FPCCI نے سراہا اور انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ایف پی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امریکہ کو ایکسپورٹ 6.5 ارب ڈالر جبکہ یورپ اور برطانیہ کیلئے ایکسپورٹ 15.8 ارب ڈالر ہیں۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ عمران خان نے امریکہ پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ میری حکومت گرانا چاہتا ہے جبکہ انہوں نے خود اسمبلی توڑ کر اپنی حکومت کا خاتمہ کیا جس سے ان کے الزام کی نفی ہوتی ہے۔ حکومت کے حالیہ اقدام سے اس بات کی قلعی کھل گئی کہ دھمکی آمیز خط کا ڈھونگ محض اس لیے رچایا گیا تاکہ عدم اعتماد کی ہزیمت سے بچا جاسکے مگر ایسا کرکے انہوں نے قانون کی دھجیاں بکھیردیں اور اس ایڈونچر سے ملکی معیشت اور سفارتی تعلقات متاثر ہوں گے اور اِن حالات کے بھیانک نتائج مرتب ہوں گے۔ عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ ملک کو بحران میں دھکیل کر ایسی نہج پر پہنچادیں کہ مارشل لا کی راہ ہموار کی جاسکے۔سپریم کورٹ آئین کا کسٹوڈین تصور کیا جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں لوگوں کی نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ سپریم کورٹ پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کا سختی سے نوٹس لے اور عدم اعتماد کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچائے اور آئین شکنوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے تاکہ کل کوئی نئے سرپرائز کے نام پر پاکستان کے آئین سے کھلواڑ نہ کرسکے۔
بشکریہ جنگ
واپس کریں