دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں جدید غلامی کے کلاس سٹرکچر کی تشکیل سمجھیں!
اکمل سومرو
اکمل سومرو
اکمل سومرو لاہور
آج کل تشکیل پانے والے بیانیوں سے چھٹکارا پائیے، عمران خان، بلاول زرداری، شہباز شریف، مریم نواز، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن وغیرہ سے بچیں! یہ تمام بیانیے سیاسی مفادات کے نگہبان ہیں جنھیں قومی مفاد سے تعبیر کیا جا رہا ہے، قومی سسٹم سمجھیں۔
جدید سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اساس کیپٹل ہے جس میں سرمایہ ایک جگہ جمع ہوتا ہے اور پیداوار بڑے پیمانے کی صنعت میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی کا فلسفہ جب پاکستان میں غالب ہوا تو پیدائش دولت کی اساس بھی کیپٹل قرار پائی۔ دکانوں کی جگہ سپر مارکیٹس، چھوٹی ورکشاپس وسیع کارخانوں میں، منی چینجرز بینکوں میں، چھوٹے دفاتر کی جگہ کمپنیوں، تاجر سرمایہ داروں میں اور کارواں سرائے اسٹاک ایکسچینج میں تیزی سے تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی میں رقم کے تبادلے کی جگہ ڈرافٹ، چیک، شیئرز اور کریڈٹس معاشی تبادلے اور تجارتی لین دین کی علامت بن رہے ہیں۔
کسانوں کو ان کے کھیتوں میں، مزدوروں کو بازاروں، ٹھیلوں، دکانوں، کارخانوں، صنعتی پیداواری یونٹس میں ہر روز بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار کیا جاتا ہے۔ چوں کہ پیداوار کے ذرائع اور محنت کے اوزار اب محض کدال، آراء، کلہاڑی، گائے گدھا اور ہل نہیں بلکہ صرف مشینری ہیں اس لیے اجرتی و تنخواہ دار مزدور مکمل طور پر سرمایہ دار کے کنٹرول یا اختیار میں ہوتا ہے۔ وہ مزدور خالی ہاتھ مالک کا سامنا کرتا ہے اور اپنے ہاتھ کی محنت کی صرف اجرت مانگ سکتا ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ اسیر اور معاشی جبر و استحصال کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ مارکس کی اصطلاح میں وہ اب مزدور نہیں بلکہ پرولتاریہ کہلاتا ہے۔
چونکہ سرمایہ دار تعداد میں کم اور ارتکاز دولت کی بنیاد پر زیادہ طاقت ور ہوتے جاتے ہیں، اور صنعت اور سرمایہ دونوں مسلسل پھیلتے جاتے ہیں، چنانچہ صنعتی پرولتاریہ مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ میں آتا ہے۔ یہ دباؤ اس کا شعور اور فکر چھین لیتا ہے۔
قرآن میں، فرعون، حکمران سیاسی طاقت کی علامت ہے۔ قارون، حکمران اقتصادی طاقت کی علامت ہے؛ اور بعلم سرکاری، حکمران پادری کی علامت ہے۔ ان تینوں مظاہر کو قرآن میں ملا، مطرف اور راہب کہا گیا ہے، جس کے معنی بالترتیب، حریص، سفاک اور دولت ہڑپ کرنے والے ہیں، یہ تینوں طبقے مسلسل بالترتیب لوگوں پر غلبہ، استحصال اور دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ نوآبادیاتی عہد میں انگریز استعمار نے اسی اصول پر یہاں کے اقتصادی ڈھانچہ کو استوار کیا جس کا تسلسل آج بھی ریاست پاکستان میں قائم ہے۔
اب پاکستان کی اشرافیہ مذکورہ تینوں خصلتوں کی حامل ہے یعنی سفاک، حریص اور حب مال کا شکار ہے۔ عمومی تاثر میں صرف جاگیردار اور سرمایہ دار کو ہی کلاس سٹرکچر کا مرکزہ مانا جاتا ہے حالاں کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کے سیاسی ڈھانچہ میں تو ان کا اثر ہو سکتا ہے تاہم قومی اقتصادی ڈھانچہ میں ان کی طاقت غالب نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی ڈھانچہ ہے جس میں ارتکاز دولت کا اصول ایڈم سمتھ کے فلسفہ کے تابع ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے اس سٹرکچر کو ہابیل اور قابیل کی خصلتوں میں تقسیم کیا ہے اور اسی کو سماج کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا ہے۔ یہ مکالمہ بہت عمدہ ہے لیکن یہ مکالمہ کس کے ساتھ آگے بڑھائیں؟ تعلیم یافتہ نوجوان بھی لچھے دار گفتگو سننے کا قیدی بنا دیا گیا ہے، علمی مکالمے ناپید ہو رہے ہیں، خیر اس پر مزید لکھوں گا۔
واپس کریں