دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بد روحیں ۔ شاعر:اللہ داد صدیقی
اللہ داد صدیقی
اللہ داد صدیقی
میرے مقدر کے غاصب

عجیب، بے ترکیب، بے ترتیب، بد تہذیب، لفظ و لہجے کا، سم پھونکتے
میں کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔ نشے میں بولتے،فقط گالیاں بھونکتے، جن کے لہجے،پرکھوں کا پتہ دیتے ہیں

چہرے پررداے حیا نہیں، نہ آنکھ میں مروت ہے
آج کل یہ مہان، حکمران ہیں، د ل میں نفرت، زبان پہ زہر ناکی لیئے حرف ہیں۔

ہماری تقدیرکے مالک بنائے گئے، جانے کن گناہوں کی سزا میں عطا ہوئے، نہ حوصلہ نہ تحمل نہ سلیقہ دیکھا

ایسی بد روحوں کے سائے میں جینا ہے، ہمیں ایسے جینا بھی کیا جینا ہے
کیا نحوست کا زمانہ پایا ہم نے

داد صدیقی
واپس کریں