دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے اور حقائق
خواجہ حبیب
خواجہ حبیب
عام طور پر تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہیکہ پی ٹی آئی میں لوگ کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے ہوتے ہیں. مگر دوسرے تمام بیانیوں کیطرح یہ بھی سب دکھانے کی باتیں ہیں، محض افسانے ہیں، نیرے ڈھگوسلے ہیں.
حقیقت احوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی اس "پڑھی لکھی کمیونٹی" کو نہ یہ معلوم ہیکہ آکسفورڈ برطانیہ میں ہے یا امریکہ میں. نہ انہیں یہ سوجھ بوجھ ہیکہ یونیورسٹی کا ڈین کیا ہوتا ہے، اور ایک ایڈوائزر کیا ہوتا ہے. نہ یہ خان کا خطاب صحیح سنتے ہیں، پھر نجانے عجب اور کچھ مضحکہ خیز کہاں سے اخذ کر لیتے ہیں.

ویسے تو یہاں ایک سے بڑھ کر ایک سقراط، بقراط، افلاطون اور ارسطو بھرے پڑے ہیں. مگر ہیں سبھی پڑھے لکھے جاہل.
سیکنڈ ائیر کے اس نوجوان کو دیکھیں، اسکی ناقص معلومات دیکھیں، اور بلا کا اسکا اعتماد دیکھیں، عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسے کیسے مفلوج زہن لوگ کس ڈھٹائی کیساتھ یہاں پڑھے لکھوں کا تاثر دیتے پھرتے ہیں.
مہاتما عالمی فورم پر یا کسی اینکر کے ہاں بولتا ہے تو وہ سر پکڑ لیتے ہیں کہ آخر یہ چیز ہی کیا ہے. انکا وزیر خارجہ سی این این کو انٹرویو دیتا ہے تو یوتھیاز عش عش کر اٹھتے ہیں، اور واپسی پر خواتین اسکا ایئرپورٹ پر والہانہ استقبال کرتی ہیں کہ جیسے فلسطین فتح کر لیا ہو.

مگر عالمی امور اور تعلقات عالم جاننے والے جانتے ہیں کہ خاتون اینکر پاکستانی وزیر خارجہ کی زبان سے دنیا کو کیا (پاکستانیوں کی سامیت دشمنی) باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے. اس خاتون کا احوال لینے کیلئے دوسری خاتون اینکر کسی اور چینل پر اسے مہمان بلاتی ہے. اور یہ ڈسکس کرتے ہیں کہ عالمی سفارتکاری کے کور ایشوز اور انکی اصطلاحات پر پاکستانی وزیر خارجہ کی جانکاری کیسی کوری سی ہے.
یاد رہے، اس موقع پر ہمارے ملتانی وزیر خارجہ سام دشمنی (Anti sematicism) کا واہیات الزام پاکستان کے سر تھوپ آئے تھے. حالانکہ اس موقع پر آپ کہہ سکتے تھے کہ میں سام مخالف (نسلی منافرت کا قائل) نہیں، مگر ہاں صیہونیت مخالف (سیاسی طور پر غیر متفق) ضرور ہوں.
مگر انہیں صیہونیت اور سامیت میں فرق معلوم ہو تو ناں. اسلامی تعلیمات و روایات اور آج کے مروجہ عالمی قوانین کسی بھی گروہ کیخلاف انکی زبان، رنگ، نسل، اور مزہب کی بنیاد پر مخالفت، دشمنی اور نفرت کی اجازت نہیں دیتے.

تعلقات عالم (International Relations) کا ایک طالبعلم بھی بخوبی جانتا ہیکہ آج کی دنیا میں سامیت کو ایک اہم و مرکزی مقام حاصل ہے. مزید یہ کہ ایک مغربی ملک کے چینل پر سامیت دشمنی پر مبنی جزباتی بیان سے ملک کو سفارتکاری کے میدان کے علاوہ دفاع اور معیشت کے میدان میں کتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے.
ایک اسٹیٹس مین کا یہ کام ہرگز نہیں کہ عالمی فورم ہر بیٹھ کر وطن کی سیاست میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے کیلئے محض جزباتی بیان دیکر سفارتکاری کے میدان میں روڑے اٹکائے. سچ ہیکہ ہمارے ہاں ایک سے ایک سیاستدان ہے، مگر ان میں اسٹیٹس مین بالکل نہیں جو غیر مقبول فیصلے کرے اور غیر مقبول بیانات دے.
اسی سیاسی جزباتیت نے یہاں سماجی مشکلات میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے. لوگ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں. الزامات اور گالیوں پر مبنی جزباتی سیاست رشتوں میں دراڑیں ڈال رہی ہے. حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں. ناسمجھ نوجوانوں میں جیسے بارود بھرا جا چکا ہے، جو بس کسی بھی وقت پھٹنے کیلئے تیار ہے. ان میں بھرے بارود کو کوئی بھی، کبھی بھی تیلی دکھا سکتا ہے.
ایسے نوجوان لیڈران کیلئے پھٹنے کیلئے تو ہمہ وقت بیٹھے ہی ہیں، مگر عقل، شعور، مشاہدے، منطق، اور استدلال سے بالکل کام نہیں لیتے. اپنے کنسیپٹس کلیئر کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے. بڑے اعتماد کیساتھ بونگیاں مارنا وہ اپنے کلٹ کے مہاتما سے ہی سیکھتے ہیں.
واپس کریں