اے. ایس شینا
کارل مارکس نے جو لکھا وہ انڈسٹریل ریولوشن کے بعد یورپ میں مزدوروں کے استعصال کے متعلق تھا ، اور بادشاہتوں کے خلاف تھا ، کارل مارکس نے ہیگل کے نظریات کو ہی آگے بڑھایا تھا ۔ چائنہ ، رشیا نے کارل مارکس کے نظریات کا ستیاناس کیا ہے اور پبلک اور حکومتی ڈھانچے میں استعمال کرکے ان دونوں شعبوں میں مورل ، مالی کرہشن کے علاوہ لوگوں کے ان چیلنج کرنے اور سوال اٹھانے ان کی آواز خاموش کرنے کے لئے سیاسی ھتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔رشیا میں ابھی تک کوئی بھی انڈسٹریل ریولوشن نہیں آئی اور چائنہ کمیونیزم کا ڈھونگ کرتا ہے لوگوں کو دبانے کے لئے کمیونزم اور کاروبار کرنے کے لئے کیپٹل ازم ۔ منافقت ہی منافقتکارل مارکس جب لکھ رہا تھا اس وقت پورے یورپ میں بادشاہتیں اور چھوٹے موٹے مہاراجے تھے اس لئے ان بادشاہتوں کو اکھاڑنا ضروری تھا انڈسٹریلسٹ مزدوروں کا استحصال کرکے بادشاہوں کو اچھا خاصا پیسہ دیتے تھے جو وہ لوگوں کو جنگوں میں جھونکنے اور ایک دوسرے سے لڑانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یورپ میں چرچ نے بھی مذہب کو ہتھیار بنا کر لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا ۔ اس لئے کارل مارکس جنگوں ، بادشاہوں اور چرچ کے خلاف تھا۔کارل مارکس کے لکھے ہوئے کو سمجھنے کے لئے اس دور کے یورپ میں عام لوگوں ، مزدوروں ، عورتوں اور مذہبی کلاس کو پڑھے اور سمجھے بغیر آپ کارل مارکس کو نہیں سمجھ سکتے ۔جرمنی سمیت یورپ کی بہت ساری ریاستیں کارل مارکس کے لکھے ہوئے سے فائدہ اٹھا کر مزدورں ، کسانوں ، عورتوں کی حالت بہتر بنا چکی ہیں ریاستیں معاملات سے چرچ کی اتھارٹی اور مذہب کے استعمال کو ممنوع قرار دے چکی ہیں ۔ اینٹی وار ہوچکی پیں ۔ جرمنی میں مہارت والا مزدور بہت زیادہ پیسے کماتا اور عام مزدور کی بھی فی گھنٹہ کے حساب سے سیلری مقرر ہے یہاں پر ایک گھنٹہ کام کرنے والا مزدور فی گھنٹہ پندرہ یورو لیتا ۔پاکستان کے پبلک سیکٹر میں سفارش ، سیاسی اور فوجی بھرتیوں نے اس سیکٹر کا ستیاناس ہی نہیں کیا بلکہ اس کے اوپر کوئی بھی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے ۔ سٹیل مل ، پی آئی اے کا حشر دیکھ لیں ادھر فوجی بیٹھے ہوئے اور یئ دونوں ادارے کوئی منافع دینے کی بجائے ہر مہینے اس غریب قوم کے پیسوں پر پل رہے ۔ ہیلتھ اور تعلیم کا سیکٹر پبلک سیکٹر رہنا چاہئے اور اس ہر بہت زیادہ خرچ کرنا چاہئے ۔ پی آئی اے سٹیل مل سے جان چھڑانی چاہئے ۔
اس وقت پاکستان کا اندرونی قرضہ ڈھائی ہزار ارب ہوچکا ۔ اس میں جو سفید ہاتھی ادارے اور ان اداروں میں جو غیر پروفیشنل فوجی بیٹھے ہوئے ان کو بیرکوں میں بھیجنے کی بجائے آپ اس معاشی تباہی کا ذمہ دار عمران خان اور اس کی حکومت کو قرار دینے کی بجائے سچ بولنا سیکھیں یا خاموش رہیں۔
واپس کریں
اے. ایس شینا کے دیگرکالم اور مضامین