دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چائے کی پیالی کو کناروں تک بھگوتا سیاسی طوفان
ظفر فیاض
ظفر فیاض
پیپلز پارٹی کی دو ہزار آٹھ والی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں نے سپورٹ کیا۔ اپوزیشن نے اس حد تک پی پی کا ساتھ دیا کہ عمران خان نے اسے فرینڈلی اپوزیشن اور مک مکا کا نام دیا (جو یقینا پارلیمانی نظام سے ناآگاہی اور سیاسی جہالت کا ثبوت تھا)۔ یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور آصف علی زرداری نے پورے پانچ سال کسی سروائیول چیلنج کے بغیر حکمرانی کی۔ اس دوران میمو گیٹ جیسی شرلیاں بھی چھوٹتی رہیں مگر ایک مرتبہ بھی اپوزیشن نے حکومت گرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی (جسے اختلاف ہو برائے مہربانی پارلیمنٹ میں پی پی اور ن کی سیٹوں کی تعداد دوبارہ چیک کر لے)، البتہ پنجابی والا تراہ نکالنے کے لئے منہ سےبکرے ضرور بلائے جس میں سے بدترین بکرا نواز شریف کا کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس کے دوران حاضری لگانا تھا۔
جب دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کے بوجھ تلے دب گئی، اور عوام نے ن لیگ کو ووٹ دیا، تو حلف اٹھانے سے پہلے ہی سازشوں کا سنجیدہ اور ٹارگٹڈ سلسلہ شروع ہوا۔ لندن پلان کی تفصیلات اور بعد کے تاریخی واقعات اس سب پہ گواہ ہیں۔ عمران خان دونوں بڑی جماعتوں کی نسبت لکی ثابت ہوا کیونکہ شروع دن سے اسے کسی نے بھی ایک سو چھبیس دن دھرنوں جیسی واہیات آزمائش میں نہیں ڈالا۔ نا سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ پھوکی تحریکوں اور عدم اعتماد کی ناکام کوششوں کے ذریعے اپوزیشن یہ کوشش تو کرتی رہی کہ شہیدوں میں نام۔لکھوایا جائے اور یاد دلایا جائے کہ وہ بھی کھڑی ہے راہوں میں مگر جس بری طرح دو ہزار تیرہ کے بعد برسراقتدار آئی جماعت کو ہر طرف سے کارنر کیا گیا، ایسی کسی غیر جمہوری یا غیر آئینی ایجی ٹیشن کا عمران کو کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پھر بھی کارکردگی کےباب میں خان کے دامن میں ناکامیوں اور بدترین پرفارمنس کے سوا کچھ نہیں۔
ان دنوں جو سیاسی طوفان چائے کی پیالی کو کناروں تک بھگوتا دکھائی دے رہا، دو ہزار چودہ کا ایک سو چھبیس دن کا دھرنا اسکے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یقینا عمران خان کی ساری زندگی گریس سے اتنی ہی دوری پر تھی جتنا سورج زمین سے، مگر آج کل تو جیسے کسی نے گٹر کے بیسیوں دھانوں سے ایک ہی دفعہ ڈھکن اٹھا دیا ہو۔ یعنی تعفن کے بھبھکوں نے جس تسلسل سے خان کے دھانے کو اخراج کا واحد راستہ سمجھا اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے یوسف رضا گیلانی یا نواز شریف کی طرح خان کی پارٹی کو بھی کسی دوسرے کو وزیر اعظم بنانا پڑ جائے مگر دندل کی ہر حد کو پھلانگنا کوئی معقول ردعمل نہیں۔ ساری عمر گلی کے لونڈوں لپاڑوں کی عادتوں والے اس کپتان کو اگر اس عمر "واڑی" مل ہی گئی تو ہار یا جیت، گریس فلی تو کھیلے۔ کسی کی شلوار سے ناڑہ نکلے تو بے اختیار دو ایک ہلکے جملے بے ساختہ نکل جاتے مگر اسکی زبان سے تو دشنام کا پرنالہ ہی بہہ نکلا ہے جیسے اسکا صرف ناڑہ نہیں اجابت ہی نکلی گئی ہو۔۔۔۔
واپس کریں