دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انڈین پارلیمنٹ میں نوٹنکی
نعیمہ  مہجور
نعیمہ مہجور
انڈیا کے حالیہ انتخابات نے بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو حکومت کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہو مگر اس نے ساتھ ہی حزب اختلاف کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا حوصلہ بھی دیا ہے۔نئی دہلی کے ایک یو ٹیوبر انیل شرما کہتے ہیں کہ ’ووٹروں کو پہلی بار جمہوری طرز پر چلنے والے پارلیمان کا نظارہ مل رہا ہے، جو 10 سال سے اپنے سوالوں کی جوابدہی کا انتظار کر رہے تھے۔‘
پارلیمنٹ میں کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کی دھواں دار تقریریں دیکھ کر حکمران جماعت کے چہرے لٹکے ہوئے نظر آرہے تھے، مگر عوام کو ایسا منورنجن کافی دیر کے بعد نصیب ہو رہا تھا۔
جہاں اتحاد کے پارلیمانی لیڈر راہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کی قومی پالیسیوں پر لفظوں کے تیر برسائے ہیں، وہیں سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے شعر وسخن سے بی جے پی پر کئی ایسے میزائل داغے، جن کا حکمران جماعت کے پاس کوئی جوابی میزائل موجود نہیں تھا۔
پھر آل انڈیا ترنمول کانگریس کی تیز طرار رہنما مہوا موئترا نے نریندر مودی کو براہ راست نشانہ بنا کر پچھلی پارلیمان میں اپنی برطرفی کا پورا حساب چکتا کر دیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ 10 برسوں سے پارلیمان پر انتہا پسند جماعت بی جے پی کی اجارہ داری قائم رہی ہے۔
یہاں حال ہی میں اپوزیشن کو بولنے کا موقع ملا ہے بلکہ آواز دبانے کے لیے اپوزیشن کے 100 سے زائد رہنماؤں کو معطل کردیا گیا تھا، جو پارلیمان کی روزانہ کی کارروائیوں میں شامل ہی نہیں ہوسکے۔
پارلیمان کا پہلا اجلاس دیکھ کر سب کو محسوس ہوا کہ جیسے اپوزیشن رہنماؤں کے جگر پھٹنے کو تیار ہیں، جو بی جے پی سے 10 سال کی اجارہ داری اور زور زبردستی کا بھرپور بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
صدر مرمو کی افتتاحی تقریر پر ردعمل کے آغاز میں جب اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے بی جے پی کی کسانوں، طلبہ، اقلیت، اگنی ویر اور ادھی واسیوں کی پالیسیوں پر تابڑ توڑ حملے کیے تو اس سے دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کے خوب حوصلے بڑھے اور انہوں نے بی جے پی کو اس کی ہر ایک پالیسی پر آڑے ہاتھوں لے لیا، جن میں منی پور، نیٹ امتحان اور برادریوں میں نفاق سر فہرست رہے۔بظاہر پارلیمان اور اراکین پارلیمان پرانے ہیں البتہ راہل گاندھی نے اپنی انٹری اور تقریر سے ایک نئے بیانیے کے ذریعے ایک نئی پارلیمان کی تصویر پیش کر دی ہے، جو بی جے پی کو ایک طرح سے وارننگ بھی تھی کہ اب کی بار تانا شاہی نہیں چلے گی، اب کی بار صرف اپوزیشن کی سنی جائے گی اور اب کی بار حکمران جماعت کو خاموش رہنا ہوگا۔
راہل کی آواز پر اپوزیشن کے تمام اراکین نے لبیک کہا۔ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش میں کئی بار سپیکر نے مائیکروفون بند کردیا، جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر ہوا۔بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ حالیہ انتخابی مہم کے دوران جس طرح وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکائے اور ہندو ووٹ بٹورنے کے لیے ہندوتوا کی تحریک کو خوب ابھارا، بالکل اسی طرح راہل گاندھی نے ایوان میں بھگوان شیو کی فوٹو دکھا کر ’لوہا، لوہے کو کاٹتا ہے‘ کے مترادف ان پر الٹا وار کیا اور یہ وار نشانے پر لگا۔
راہل گاندھی نے کہا کہ ہندو مذہب تشدد اور نفرت نہیں پھیلاتا بلکہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتے، جس پر بی جے پی نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم شروع کی جو بظاہر ناکام ہوگئی۔
جب راہل گاندھی نے اسلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوازم اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی درس دیتا ہے کہ ڈر اور خوف کی حالت میں کبھی نہیں رہنا چاہیے تو اس پر بی جے پی کے رہنما سیخ پا ہوگئے اور سپیکر سے راہل کی تقریر کے کچھ حصے حذف کرنے پر زور دیا۔
10 برسوں میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے جب انڈین میڈیا اپوزیشن کی تقرریں دکھانے پر مجبور ہوا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر راہل گاندھی اور دوسرے رہنماؤں کی وائرل ویڈیوز سے طوفان کھڑا ہو رہا تھا۔
پارلیمان کے سپیکر نے فوراً بھانپ لیا کہ راہل گاندھی ہندو بن کر بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے فورا بھگوان شیو کی تصویر دکھانے پر تنبیہ کی۔ بی جے پی خود کو ہندومت کی واحد گارڈین سمجھتی ہے۔اس بار کانگریس سمیت اپوزیشن کا رویہ نہ صرف یکسر مختلف ہے بلکہ اتنا سخت اور تند بھی کہ وزیراعظم کی دو گھنٹے سے زائد دورانیے کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے نعرے بند نہیں ہوئے اور انہیں بولتے ہوئے کانوں پر ہیڈفون رکھنا پڑا۔ وہ بار بار پانی بھی پیتے رہے۔
میسور کے ایک سیاسی مبصر رویندر راٹیل کے مطابق موجودہ دور میں دنیا کی بڑی جمہورتیں ویسے زوال کی جانب گامزن ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور انڈیا قابل ذکر ہیں جہاں اندرونی طور پر سیاسی افراتفری کا عالم ہے۔
امریکہ میں ممکنہ خانہ جنگی، برطانیہ اور فرانس میں سیاسی انتہا پسندی اور انڈیا میں ہندتوا کی لہر سے عوامی حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈین ووٹر نے کسی حد تک جمہوریت کی روح میں دوبارہ جان ڈال دی ہے جبکہ فرانس کے انتخابات میں انتہا پسندوں کا غلبہ ہو رہا ہے، برطانوی انتخابات میں بھی بائیں بازو والی جماعت لیبر پارٹی کی الیکشن جیتنے کے واضح اشارے ہیں۔
’بنگلہ دیش اور پاکستان میں جعلی انتخابی عمل کے نتائج اور اندرونی انتشار سے کون واقف نہیں، لگتا ہے کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی جمہورتوں میں جو سیاسی اور معاشی اتھل پتھل جاری ہے، وہاں انڈیا میں اپوزیشن کی مضبوطی اور پارلیمانی جمہوریت کا واپس اپنی شکل میں آنا ایک خوش آئند بات ہے۔‘
انڈین پارلیمان کے اجلاس میں بعض مسلم اراکین نے پہلی بار آج کھل کر کہا کہ ہندوتوا کے ہجومی تشدد نے نہ صرف درجنوں مسلمانوں کی جانیں لی بلکہ ان کی نمائندگی چار فیصد سے بھی کم ہے۔
انتہا پسندوں نے مختلف برادریوں کو تقسیم کرکے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے سے ملک میں خوف کی ایسی فضا قائم کی کہ اقلیتوں کو اپنا وجود متزلزل دکھائی دے رہا ہے اور جس کو صرف سیکولر لیڈرشپ ختم کرسکتی ہے، شاید اس کا آغاز راہل گاندھی کو ہی کرنا ہوگا اور اقلیتوں کو تحفظ، برابری اور اداروں میں نمائندگی کا یقین دلانا ہوگا۔
واپس کریں